پاکستان کی وفاقی حکومت نے کالعدم تنظیموں سے وابستہ مشتبہ افراد کے گرد گھیرا تنگ کرتے ہوئے اُن کے قومی شناختی کارڈ ’بلاک‘ کرنے اور اُن کی سفری دستاویزات کی منسوخی کا فیصلہ کیا ہے۔
وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار کی سربراہی میں ہونے والے ایک اعلیٰ سطحی اجلاس کے بعد پیر کی شب ایک بیان میں کہا گیا کہ ایسے تمام افراد کے سفری کاغذات، قومی شناختی کارڈ اور ڈرائیونگ لائسنس، موبائل سم اور بینک اکاﺅنٹس کھولنے اور استعمال کرنے کی اجازت جیسی بعض سہولتیں واپس لینے کا فیصلہ کیا گیا۔
وزیر داخلہ نے کہا کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کوششوں سے ملک میں امن و امان کی صورت میں بہتری آئی ہے اور اُن کے بقول حالات میں بہتری کے لیے جاری کاوشوں کو ’دو گنا‘ کرنا ہو گا۔
اجلاس کے شرکاء کو وفاقی تحقیقاتی ادارے ’ایف آئی اے‘ کی طرف سے بتایا گیا کہ انسانی اسمگلنگ میں ملوث 1011 افراد کو حراست میں لیا جا چکا ہے۔
واضح رہے کہ پاکستان نے انسداد دہشت گردی کا قومی لائحہ عمل وضع کر رکھا ہے جس کے تحت ملک بھر میں دہشت گردوں اور اُن کے معاونین و ہمدردوں کے خلاف کارروائی جاری ہے۔
وفاقی حکومت کی طرف سے اب کالعدم تنظیم سے وابستہ افراد کے خلاف گھیرا تنگ کرنے کے فیصلے کو مبصرین ایک اہم پیش رفت قرار دے رہے ہیں۔
پاکستان کے سابق سیکرٹری داخلہ تسنیم نورانی نے اس بارے میں وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’’ضروری نہیں کہ کالعدم تنظیموں سے وابستہ افراد براہ راست کسی غیر قانونی کام میں ملوث ہوں اور ضروری نہیں کہ ان کے خلاف کوئی 'ایف آئی آر' بھی درج ہو۔۔۔۔۔ اگر حفظ ما تقدم کے طور پر اس طرح کے اقدام کیے جاتے ہیں تو یہ ایک اچھی پیش رفت ہے‘‘۔
پاکستان کو طویل عرصے سے بدترین دہشت گردی کا سامنا ہے۔ اگرچہ حالیہ مہینوں میں ملک میں دہشت گردوں کے حملوں میں نمایاں کمی آئی ہے لیکن اس کے باوجود عسکریت پسندوں کی طرف سے کچھ مہلک حملے بھی کیے گئے ہیں۔
ملک کی سیاسی اور عسکری قیادت کا کہنا ہے کہ دہشت گردوں کے خلاف آخری حد تک جایا جائے گا۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ افغان سرحد سے ملحقہ پاکستان کے قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں دہشت گردوں کے خلاف جاری فوجی آپریشن کے آخری مرحلے کا آغاز کر دیا گیا ہے اور عسکری حکام کے مطابق زمینی فوج کی پیش قدمی جاری ہے۔