پاکستان میں دہشت گردی و انتہا پسندی کے خاتمے کے لیے تیار کیے گئے قومی لائحہ عمل کے تحت جہاں دیگر کئی اقدامات کیے جا رہے ہیں وہیں حکومت تمام دینی مدارس کی رجسٹریشن بھی کرنے جا رہی ہے۔
جمعہ کو سینیٹ کے اجلاس میں وزیر مملکت برائے امور داخلہ بلیغ الرحمن نے ایوان کو بتایا کہ حکومت تمام دینی مدارس کا اندراج کرنے جا رہی ہے، جس کا مقصد انھیں قومی دھارے میں لانا ہے۔
پاکستان میں مختلف مسالک کے لگ بھگ 18 ہزار سے زائد مدارس ہیں جن میں پڑھنے والوں کی تعداد ایک اندازے کے مطابق 13 لاکھ سے زائد ہے۔ لیکن مدارس کی کل تعداد جاننے کے لیے بھی سرکاری طور پر کام جاری ہے۔
ایک عرصے سے ان مدارس کی رجسٹریشن کی بات ہوتی رہی ہے لیکن بوجہ یہ کام کلی طور پر پایہ تکمیل کو نہیں پہنچ سکا ہے۔
عہدیداروں کے مطابق اس رجسٹریشن کا مقصد ان کے امور کو ایک ضابطہ کار میں لانے کے علاوہ نصاب کو موجودہ تقاضوں سے ہم آہنگ بنانا بھی ہے۔
وزیر مملکت بلیغ الرحمن نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ مدارس کی رجسٹریشن کے حوالے سے اگر کسی کو تحفظات ہیں تو اُنھیں بھی دور کیا جائے گا۔
Your browser doesn’t support HTML5
"وہ مدارس جن میں اگر کوئی غیر قانونی سرگرمی ہو رہی ہے تو اسے روکا جائے۔ میں سمجھتا ہوں کہ جو باتیں مدرسے کے لوگوں نے یا دوسری تنظیموں نے اکٹھے ہو کر کی ہیں وہ وہی ہیں جو حکومت نے کی ہیں اور وہ اس بات پر معترض نہیں کہ رجسٹریشن کی جائے۔ اس سے اگر کوئی غلط فہمی ہو گی وہ بھی دور ہو جائے گی۔"
ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے گزشتہ سال ایک منصوبے کے تحت مدرسوں میں پرائمری کے اساتذہ کو تعینات کرنے کا فیصلہ کیا تھا جس پر کام کافی حد تک مکمل ہو چکا ہے۔
"وہ مدرسے جہاں چھوٹے بچے پڑھتے ہیں وہاں حکومت پرائمری کے اساتذہ فراہم کرے گی اور مدرسوں نے اسے سراہا ہے۔"
مدرسوں کی رجسٹریشن کے لیے سنجیدگی میں اضافہ گزشتہ ماہ پشاور میں فوج کے زیر انتظام چلنے والے ایک اسکول پر ہوئے دہشت گرد حملے کے بعد دیکھا جا رہا ہے۔ اس واقعے میں 134 بچوں سمیت کم ازکم 150 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
حکام کے بقول دہشت گردی سے نمٹنے کے قومی لائحہ عمل کے تحت ایسے مدارس جن کے خلاف کسی بھی طرح کی دہشت گردی و انتہا پسندی میں کردار ادا کرنے کے ثبوت ملیں گے ان کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔
مدارس کے بارے میں حکومتی اقدامات پر بعض مذہبی حلقوں نے شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے لیکن وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان یہ کہہ چکے ہیں ملک کے تقریباً نوے فیصد سے زائد مدارس کسی مشکوک سرگرمی میں ملوث نہیں جب کہ جن چند دینی تعلیمی اداروں کے بارے میں شواہد ملے ہیں ان کے خلاف بلا تفریق کارروائی کی جائے اور اس میں حکومت کو ان کے بقول مذہبی حلقوں کی حمایت حاصل ہے۔