کالعدم لشکر طیبہ کے بانی حافظ سعیدکی رہائی کے خلاف وفاق اور حکومت پنجاب کی دائر کردہ اپیلوں کو سپریم کورٹ نے مسترد کردیا ہے۔
منگل کو عدالت عظمیٰ میں اس مقدمے کی سماعت کرنے والے بنچ نے یہ فیصلہ حکومت کی طرف سے حافظ سعید کے ممبئی حملوں یا القاعدہ سے تعلقات کے ثبوت پیش نہ کرنے پر سنایا۔
جج صاحبان کا مئوقف تھا کہ ملک کا قانون محض مفروضوں کی بنیاد پر کسی شخص کی آزادی کو صلب کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔
خیال رہے کہ بھارتی حکومت نومبر 2008ء میں ممبئی میں ہونے والے دہشت گردانہ حملوں کی ذمہ داری لشکر طیبہ پر عائد کرتی ہے اور اس کا الزام ہے کہ حافظ سعید ان حملوں کا ماسٹر مائند ہے۔
ان الزامات کے بعد پاکستانی حکام نے حافظ سعید کو اُن کے گھر میں نظر بند کر دیا تھا لیکن لاہور ہائی کورٹ نے جون 2009ء کو اس اقدام کو غیر قانونی قرار دے کر انھیں رہا کرنے کا حکم جار ی کردیا ۔ اس فیصلے کے خلاف وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے سپریم کورٹ میں اپیلیں دائر کر رکھی تھیں جن پر منگل کو فیصلہ سنایا گیا۔
بھارتی حکام کا کہنا ہے کہ ممبئی حملوں میں 10 عسکریت پسندوں نے حصہ لیا تھا جن میں سے نو کو سکیورٹی فورسز نے ہلاک کر دیا تھا جبکہ اجمل قصاب نامی ایک پاکستانی حملہ آور کو زندہ گرفتار کرلیا گیا جسے اس ماہ بھارت کی ایک عدالت نے دہشت گردی کا جرم ثابت ہونے پر سزائے موت سنائی ہے۔
پاکستان نے اعتراف کیا ہے کہ ممبئی حملوں کی منصوبہ بندی کے لیے اس کی سرزمین استعمال کی گئی ۔ اس سلسلے میں پاکستان میں جن سات مشتبہ افراد کو گرفتار کر کے اُن پر مقدمہ چلایا جار ہا ہے ان میں لشکر طیبہ کا ایک اعلیٰ کمانڈر بھی شامل ہے۔
لیکن پاکستانی حکام کا موقف ہے کہ زیر حراست افراد یا پھر حافظ سعید کے خلاف بھارت نے جو ثبوت فراہم کیے ہیں وہ ان مشتبہ شدت پسندوں کو عدالت سے سزا دلوانے کے لیے کافی نہیں۔
حافظ سعید کے خلاف عدالت عظمیٰ کا فیصلہ ایک ایسے وقت سنایا گیا ہے جب دونوں ممالک نے دو طرفہ امن مذاکرات کا سلسلہ بحال کرنے پر اتفاق کیا ہے اور اس سلسلے میں 15 جولائی کو بھارتی وزیر خارجہ اسلام آبادمیں اپنے پاکستانی ہم منصب کے ساتھ ایک اہم ملاقات کرنے آ رہے ہیں۔