پاکستان میں 2008ء یہ سزائے موت پر عملدرآمد معطل تھا لیکن نومنتخب حکومت نے گزشتہ ماہ موت کی سزا پر پابندی کو ختم کرتے ہوئے اس بارے میں نئی پالیسی کے تحت قیدیوں کے خلاف کارروائی کا اعلان کیا تھا۔
اسلام آباد —
وفاقی حکومت نے ملک میں قیدیوں کی سزائے موت پر عمل درآمد کو فی الوقت موخر کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس بارے میں حتمی فیصلہ صدر آصف علی زرداری کی وطن واپسی پر کیا جائے گا۔
سزائے موت معطل یا ختم کرنے کا اختیار صدر مملکت کے پاس ہے اور گذشتہ دور حکومت میں وفاقی وزارت داخلہ سزائے موت پر عمل درآمد روکنے کے لیے صدر مملکت کو درخواست بھیجتی رہی ہے جس باعث پاکستان میں 2008ء سے ان سزاؤں پر عمل درآمد معطل تھا۔
تاہم نومنتخب حکومت نے گزشتہ ماہ موت کی سزا پر پابندی کو ختم کرتے ہوئے اس بارے میں نئی پالیسی کے تحت قیدیوں کے خلاف کارروائی کا اعلان کیا تھا۔
وفاقی وزارت داخلہ کے ترجمان نے وائس آف امریکہ کو بتایا تھا کہ صرف انسانی ہمدردی کی بنیادوں پر معاف کیے گئے قیدیوں کے خلاف عدالتی فیصلوں پر عمل درامد نہیں ہوگا۔
مقامی ذرائع ابلاغ کے مطابق صدر زرداری نے وزیراعظم کو ایک خط میں طویل عرصے سے زیر التوا سزائے موت کے قیدیوں کے معاملے پر بات چیت کےلیے ملاقات کا کہا ہے۔
حکومتی ذرائع کا کہنا تھا کہ چونکہ سزاؤں پر عملدرآمد کی تاریخ قریب آرہی تھی اور صدر مملکت کے بیرون ملک ہونے کی وجہ سے وزیراعظم نے وزارت داخلہ کو ہدایت کی ہے کہ صدر سے وزیراعظم کی ملاقات میں کسی نتیجے پر پہنچنے تک سزائے موت پر عملدرآمد روک دیا جائے۔
پاکستان میں تقریباً آٹھ ہزار قیدی سزائے موت پر عملدرآمد کے منتظر ہیں جب کہ حکومت کےریکارڈ کے مطابق سزائے موت کے 150 قیدی دس اور پندرہ سالوں سے مختلف جیلوں میں پڑے ہیں۔
حال ہی میں انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیموں اور یورپی یونین کی طرف سے حکومت کو خطوط لکھے گئے جن میں پھانسی کی سزائیں بحال کرنے پر تشویش کا اظہار کیا گیا۔
حکومت کا موقف ہے کہ ملک میں بڑھتی ہوئی شدت پسندی اور دہشت گردی کے پیش نظر ملکی قوانین میں موت کی سزا کا ہونا ضروری ہے۔
2007ء میں 110 ملکوں نے اقوام متحدہ کی طرف سے سزائے موت ختم کرنے کی قرارد داد کی توثیق کی تھی جس کے بعد اب 30 ایشیائی ملکوں سمیت 150 ممالک میں سزائے موت کے قانون کو ختم کیا جاچکا ہے۔
پاکستان میں حقوق انسانی کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ جدید تقاضوں اور انسانی جان کی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومت کو سزائے موت کے خاتمے کے لیے پارلیمان کے ذریعے قانون سازی کرنی چاہیے۔
سزائے موت معطل یا ختم کرنے کا اختیار صدر مملکت کے پاس ہے اور گذشتہ دور حکومت میں وفاقی وزارت داخلہ سزائے موت پر عمل درآمد روکنے کے لیے صدر مملکت کو درخواست بھیجتی رہی ہے جس باعث پاکستان میں 2008ء سے ان سزاؤں پر عمل درآمد معطل تھا۔
تاہم نومنتخب حکومت نے گزشتہ ماہ موت کی سزا پر پابندی کو ختم کرتے ہوئے اس بارے میں نئی پالیسی کے تحت قیدیوں کے خلاف کارروائی کا اعلان کیا تھا۔
وفاقی وزارت داخلہ کے ترجمان نے وائس آف امریکہ کو بتایا تھا کہ صرف انسانی ہمدردی کی بنیادوں پر معاف کیے گئے قیدیوں کے خلاف عدالتی فیصلوں پر عمل درامد نہیں ہوگا۔
مقامی ذرائع ابلاغ کے مطابق صدر زرداری نے وزیراعظم کو ایک خط میں طویل عرصے سے زیر التوا سزائے موت کے قیدیوں کے معاملے پر بات چیت کےلیے ملاقات کا کہا ہے۔
حکومتی ذرائع کا کہنا تھا کہ چونکہ سزاؤں پر عملدرآمد کی تاریخ قریب آرہی تھی اور صدر مملکت کے بیرون ملک ہونے کی وجہ سے وزیراعظم نے وزارت داخلہ کو ہدایت کی ہے کہ صدر سے وزیراعظم کی ملاقات میں کسی نتیجے پر پہنچنے تک سزائے موت پر عملدرآمد روک دیا جائے۔
پاکستان میں تقریباً آٹھ ہزار قیدی سزائے موت پر عملدرآمد کے منتظر ہیں جب کہ حکومت کےریکارڈ کے مطابق سزائے موت کے 150 قیدی دس اور پندرہ سالوں سے مختلف جیلوں میں پڑے ہیں۔
حال ہی میں انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیموں اور یورپی یونین کی طرف سے حکومت کو خطوط لکھے گئے جن میں پھانسی کی سزائیں بحال کرنے پر تشویش کا اظہار کیا گیا۔
حکومت کا موقف ہے کہ ملک میں بڑھتی ہوئی شدت پسندی اور دہشت گردی کے پیش نظر ملکی قوانین میں موت کی سزا کا ہونا ضروری ہے۔
2007ء میں 110 ملکوں نے اقوام متحدہ کی طرف سے سزائے موت ختم کرنے کی قرارد داد کی توثیق کی تھی جس کے بعد اب 30 ایشیائی ملکوں سمیت 150 ممالک میں سزائے موت کے قانون کو ختم کیا جاچکا ہے۔
پاکستان میں حقوق انسانی کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ جدید تقاضوں اور انسانی جان کی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومت کو سزائے موت کے خاتمے کے لیے پارلیمان کے ذریعے قانون سازی کرنی چاہیے۔