پاکستان میں ٹی بی کے مریضوں کی درست تعداد معلوم کرنے کے لیے امریکی مالی معاونت سے ملک گیر سروے کا آغاز کیا گیا ہے۔
پیر کے روز سے شروع ہونے والی اس مہم کے لیے امریکہ نے پینتالیس لاکھ ڈالر کی رقم فراہم کی ہے اور ایک جامعہ رپورٹ کی تیاری کے لیے 133,000 بالغ افراد کے علاوہ پہلی مرتبہ 33 ہزار سے زائد بچوں کے ٹی بی کے ٹیسٹ بھی کیے جائیں گے۔
ٹی بی کنٹرول پروگرام کے منیجر ڈاکٹر نور احمد بلوچ نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ 22 سال کے بعد اس نوعیت کا یہ پہلا سروے ہے۔ تاہم اُن کے مطابق امن وامان کی خراب صورت حال کے باعث وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں اور صوبہ بلوچستان کے ضلع ڈیرہ بگٹی کو اس میں شامل نہیں کیا گیا ہے۔
اُنھوں نے بتایا کہ وزرات صحت کے پاس اس وقت ملک میں ٹی بی کے مرض میں مبتلا افراد کے درست اعدادوشمار موجود نہیں ہیں۔
ڈاکٹر نور احمد بلوچ نے کہا کہ عالمی ادارہ صحت کے اندازوں کے مطابق پاکستان میں اس وقت چار لاکھ 20 ہزار ٹی بی کے مریض ہیں اوراسی تخمینے کی بنیاد پر ٹی بی کنٹرول کا قومی ادارہ کام کر رہا ہے۔
وزارت صحت کے عہدیداروں کا کہنا ہے کہ ٹی بی کے مریضو ں کے قابل یقین اعدادوشمارکی عدم دستیابی کے باعث اس مرض سے نمٹنے کے لیے حکمت عملی کی تیاری میں بھی مشکلات پیش آرہی ہیں اور صرف تخمینوں پر ہی کام کیا جارہا ہے۔
عہدیداروں کا کہنا ہے کہ دو سال کے بعد جب یہ سروے رپورٹ تیار ہوجائے گی تو ٹی بی کنٹرول کے لیے کام کرنے والے ادارے کے لیے منصوبہ بندی تیار کرنے میں آسانی ہوگی۔
اس سے قبل ملک میں ٹی بی کے مریضوں کی تعداد معلوم کرنے کے لیے 1960ء اور 1987ء میں سروے کیے گئے تھے۔
نیشنل ٹی بی کنٹرول پروگرام کے منیجر ڈاکٹر نور احمد بلوچ کا کہنا ہے کہ ماضی میں تیار کی گئی جائزہ رپورٹوں کی روشنی میں ٹی بی کے مریضوں کے لیے ملک بھر میں پانچ ہزار خصوصی مراکز قائم کیے گئے تھے اور ان میں سے لگ بھگ بارہ سو مراکز میں ٹی بی کی تشخیض کی سہولت موجود ہے۔