ناقص ادویات کے استعمال سے ہلاکتوں کی تعداد 73 ہو گئی

ناقص ادویات کے استعمال سے ہلاکتوں کی تعداد 73 ہو گئی

لاہور میں امراض قلب کے بڑے سرکاری اسپتال ’پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی‘ (پی آئی سی) سے مریضوں کو فراہم کی جانے والی مفت ادویات کے ری ایکشن سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد 73 ہو گئی ہے۔

صوبائی محکمہ صحت کے مطابق ناقص ادویات کے استعمال سے 438 افراد متاثر ہوئے جن میں سے 174 اب بھی لاہور کے مختلف اسپتالوں میں زیر علاج ہیں۔

صوبائی حکومت کی تشکیل کردہ طبی تحقیقاتی ٹیم کے سربراہ ڈاکٹر جاوید اکرم نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ ادویات کے نمونے لیبارٹری ٹیسٹ کے لیے امریکہ، فرانس، انگلینڈ اور بیلجئیم کے اسپتالوں میں بھجوائے گئے ہیں اور توقع ہے کہ ایک ہفتے میں تجزیاتی رپورٹ موصول ہو جائے گی۔

ڈاکٹر جاوید اکرم نے کہا کہ ابتدئی تحقیق کے بعد یہ ہی بتایا جا سکتا ہے کہ پنجاب انسٹیویٹ آف کارڈیالوجی سے فراہم کی جانے والی متعلقہ دوائیوں میں کسی دھات کی آمیزش ان ہلاکتوں کا سبب بنی۔ ’’جن مریضوں کو دوائی دے بھی گئی تھی ان میں سے لاہور اور صوبے میں سے واپس لے لی گئی ہے۔ اور اب بلوچستان اور خیبر پختونخواہ کے چیف سکریٹریوں سے میری بات ہو گئی ہے وہ بھی ہماری مدد کر رہے ہیں ان دوائیوں کی واپسی کے لیے یہ جو وہاں جا چکی ہیں‘‘۔

پولیس نے پی آئی سی کو متعلقہ ادویات فراہم کرنے والی تین دوا ساز کمپنیوں کے مالکان کو منگل کے روز حراست میں لینے کے بعد انھیں وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے حوالے کر دیا ہے۔

ڈپٹی انسپکٹر جنرل پولیس غلام محمد ڈوگر کی سربراہی میں قائم ایک اور ٹیم ناقص ادویات کی فراہمی میں مجرمانہ غفلت برتنے والوں کا پتہ لگانے کا کام جاری رکھے ہوئے۔ غلام محمد ڈوگر کا کہنا ہے کہ جن دوا ساز کمپنیوں نے یہ ادویات فراہم کی تھیں ان میں سے دو کو سر بہمر کر دیا گیا ہے۔

’’ اب اس میں پتہ نہیں کس کا قصور ہے، دوائی کس نے اس کے اندر ڈالی ہے کیا وہ مینوفیکچرر کا قصور ہے یا کوئی ٹھیکیدار، سپلائر ہے (جس نے) اس میں کوئی ملاوٹ کر دی ہے۔۔۔ اصلی والی دوائی نکال کے تو کوئی جعلی ڈال دی ہے یہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے اور ابھی تحقیق کے بعد ہی پتہ چلے گا‘‘۔

ہلاک ہونے والے افراد کے عزیز و اقارب نے ’پی آئی سی‘ کے سامنے مظاہرہ بھی کیا ہے جب کہ بدھ کو پنجاب اسمبلی کے اجلاس سے اپوزیشن جماعتوں نے احتجاجاً واک آؤٹ اور وزیراعلیٰ شہباز شریف سے مستعفی ہونے کا مطالبہ بھی کیا۔

صوبائی وزیر قانون رانا ثنااللہ نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’’جب تک لیبارٹری رزلٹس نہیں آ جاتے ... اس وقت تک اس بات کا حتمی طور پر تعین نہیں کر سکتے کہ (ہلاکتوں کی) وجہ کیا بنی‘‘۔

ڈاکٹرجاوید اکرم نے انکشاف کیا تھا کہ لگ بھگ 46 ہزار افراد مبینہ غیر معیاری ادویات حاصل کی تھیں۔