پاکستان میں روزانہ چار سو افراد فالج کی وجہ سے موت کا شکار ہوجاتے ہیں اور طبی ماہرین نے اس شرح میں کمی کے لیے لوگوں میں فالج سے بچاؤ اور اس کے علاج سے متعلق شعور بیدار کرنے پر زور دیا ہے۔
اسلام آباد —
عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا بھر میں ہرسال تقریباً ڈیڑھ کروڑ لوگ فالج کا شکار ہوتے ہیں جن میں سے ساٹھ لاکھ مریض موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔
منگل کو عالمی یوم فالج کے موقع پر دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی طبی ماہرین نے اس مرض کی وجہ سے بڑھتی ہوئی ہلاکتوں کی تعداد پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے لوگوں میں اس سے بچاؤ اور علاج کا شعور بیدارکرنے پر زور دیا۔
ماہرین کے مطابق جب انسانی دماغ کو خون کی فراہمی ضرورت کے مطابق نہ ہو یا جمے ہوئے خون کا کوئی لوتھڑا خون کے بہاؤ کے ساتھ دماغ کی شریانوں میں پہنچ جائے تو فالج کا حملہ ہو سکتا ہے۔
ایسے میں دماغ کے خلیے مردہ یا شدید متاثر ہوتے ہیں اور انسانی جسم کے جس حصے یا نظام کو یہ خلیے کنٹرول کر رہے ہوں وہ بھی متاثر ہوتا ہے۔
پاکستان میں فالج سے متعلق شعور بیدار کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم ’’پاکستان اسٹروک سوسائٹی‘‘ کے اعداد وشمار کے مطابق ملک میں ہر روز چار سو لوگ فالج کی وجہ سے زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں۔
تنظیم کے ایک عہدیدار اور آغا خان میڈیکل یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر محمد واسع کا کہنا ہے کہ پاکستان کا شمار دنیا کے ان ملکوں میں ہوتا ہے جہاں 15 سے 45 سال تک کی عمر کے افراد میں فالج کے حملے کی شرح سب سے زیادہ ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ بلند فشار خون ’ہائی بلڈ پریشر‘، ذیابیطس ’شوگر‘، تمباکو نوشی، پان اور گٹکے کا استعمال فالج کے حملے کے محرکات میں شامل ہے۔
’’45 سال سے زائد عمر کے ہر تیسرے فرد کو پاکستان میں ہائی بلڈ پریشر ہے اور ان میں سے اکثریت کو اس کا علم ہی نہیں۔۔۔ ذیابیطس بہت زیادہ ہے پاکستان میں تقریباً 80 لاکھ سے افراد کو شوگر کی بیماری ہے۔‘‘
انھوں نے بتایا کہ عالمی ادارہ صحت کی طرف سے سفارش کردہ چار اقدامات کی مدد سے فالج کی شرح میں کمی کی جاسکتی ہے۔
’’نمک کا استعمال کم کیا جائے، دوسرا سگریٹ، تمباکو نوشی، پان اور گٹکے سے پرہیز کیا جائے، تیسرا باقاعدگی سے ورزش کی جائے اور چوتھی بات یہ کہ سال میں ایک مرتبہ بلڈ پریشر، شوگر اور کولیسٹرول چیک کروایا جائے اور اگر یہ بڑھا ہوا ہوتو اسے کنٹرول کیا جائے۔‘‘
ڈاکٹر واسع کا کہنا تھا کہ کسی شخص کے جسم کا کوئی حصہ یا ہاتھ یا پاؤں کام کرنا چھوڑ دیں، زبان میں لکنت یا بولنے میں مشکل پیش آئے، ایک یا دونوں آنکھوں کی بینائی چلی جائے تو یہ علامات ظاہر کرتی ہیں کہ اس پر فالج کا حملہ ہوا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ احتیاطی تدابیر کے ساتھ ساتھ اگر مریض کو اس حملے کی صورت میں فوراً اسپتال پہنچایا جائے تو اس سے بھی فالج سے ہونے والی اموات کی شرح میں قابل ذکر حد تک کمی لائی جاسکتی ہے۔
’’خاص طور پر پہلے 24 گھنٹوں میں مریض کے بلڈ پریشر کو کنٹرول میں رکھنا اسے انفیکشن سے بچانا، اب ایسی ادویات بھی آگئی ہیں کہ اگر مریض کو حملے کے تین گھنٹوں میں اسپتال پہنچا دیا جائے تو ان دوائیوں کی مدد سے جمنے والے خون کو تحلیل کر دیا جاتا ہے اور اس سے مریض کی حالت بہتر ہو جاتی ہے۔‘‘
طبی ماہرین کے بقول دنیا کے علاوہ پاکستان میں بھی انسانی معذوری کی سب سے بڑی وجہ فالج ہی ہے اور اس کی شرح میں تیز اضافے کو روکنے کے لیے سرکاری سطح پر اقدامات کے علاوہ لوگوں کا اپنی طرز زندگی میں تبدیلی لانا بہت ضروری ہے۔
منگل کو عالمی یوم فالج کے موقع پر دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی طبی ماہرین نے اس مرض کی وجہ سے بڑھتی ہوئی ہلاکتوں کی تعداد پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے لوگوں میں اس سے بچاؤ اور علاج کا شعور بیدارکرنے پر زور دیا۔
ماہرین کے مطابق جب انسانی دماغ کو خون کی فراہمی ضرورت کے مطابق نہ ہو یا جمے ہوئے خون کا کوئی لوتھڑا خون کے بہاؤ کے ساتھ دماغ کی شریانوں میں پہنچ جائے تو فالج کا حملہ ہو سکتا ہے۔
ایسے میں دماغ کے خلیے مردہ یا شدید متاثر ہوتے ہیں اور انسانی جسم کے جس حصے یا نظام کو یہ خلیے کنٹرول کر رہے ہوں وہ بھی متاثر ہوتا ہے۔
پاکستان میں فالج سے متعلق شعور بیدار کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم ’’پاکستان اسٹروک سوسائٹی‘‘ کے اعداد وشمار کے مطابق ملک میں ہر روز چار سو لوگ فالج کی وجہ سے زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں۔
تنظیم کے ایک عہدیدار اور آغا خان میڈیکل یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر محمد واسع کا کہنا ہے کہ پاکستان کا شمار دنیا کے ان ملکوں میں ہوتا ہے جہاں 15 سے 45 سال تک کی عمر کے افراد میں فالج کے حملے کی شرح سب سے زیادہ ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ بلند فشار خون ’ہائی بلڈ پریشر‘، ذیابیطس ’شوگر‘، تمباکو نوشی، پان اور گٹکے کا استعمال فالج کے حملے کے محرکات میں شامل ہے۔
’’45 سال سے زائد عمر کے ہر تیسرے فرد کو پاکستان میں ہائی بلڈ پریشر ہے اور ان میں سے اکثریت کو اس کا علم ہی نہیں۔۔۔ ذیابیطس بہت زیادہ ہے پاکستان میں تقریباً 80 لاکھ سے افراد کو شوگر کی بیماری ہے۔‘‘
انھوں نے بتایا کہ عالمی ادارہ صحت کی طرف سے سفارش کردہ چار اقدامات کی مدد سے فالج کی شرح میں کمی کی جاسکتی ہے۔
’’نمک کا استعمال کم کیا جائے، دوسرا سگریٹ، تمباکو نوشی، پان اور گٹکے سے پرہیز کیا جائے، تیسرا باقاعدگی سے ورزش کی جائے اور چوتھی بات یہ کہ سال میں ایک مرتبہ بلڈ پریشر، شوگر اور کولیسٹرول چیک کروایا جائے اور اگر یہ بڑھا ہوا ہوتو اسے کنٹرول کیا جائے۔‘‘
ڈاکٹر واسع کا کہنا تھا کہ کسی شخص کے جسم کا کوئی حصہ یا ہاتھ یا پاؤں کام کرنا چھوڑ دیں، زبان میں لکنت یا بولنے میں مشکل پیش آئے، ایک یا دونوں آنکھوں کی بینائی چلی جائے تو یہ علامات ظاہر کرتی ہیں کہ اس پر فالج کا حملہ ہوا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ احتیاطی تدابیر کے ساتھ ساتھ اگر مریض کو اس حملے کی صورت میں فوراً اسپتال پہنچایا جائے تو اس سے بھی فالج سے ہونے والی اموات کی شرح میں قابل ذکر حد تک کمی لائی جاسکتی ہے۔
’’خاص طور پر پہلے 24 گھنٹوں میں مریض کے بلڈ پریشر کو کنٹرول میں رکھنا اسے انفیکشن سے بچانا، اب ایسی ادویات بھی آگئی ہیں کہ اگر مریض کو حملے کے تین گھنٹوں میں اسپتال پہنچا دیا جائے تو ان دوائیوں کی مدد سے جمنے والے خون کو تحلیل کر دیا جاتا ہے اور اس سے مریض کی حالت بہتر ہو جاتی ہے۔‘‘
طبی ماہرین کے بقول دنیا کے علاوہ پاکستان میں بھی انسانی معذوری کی سب سے بڑی وجہ فالج ہی ہے اور اس کی شرح میں تیز اضافے کو روکنے کے لیے سرکاری سطح پر اقدامات کے علاوہ لوگوں کا اپنی طرز زندگی میں تبدیلی لانا بہت ضروری ہے۔