پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں شدید گرمی کے باعث گزشتہ پانچ روز میں مرنے والوں کی تعداد ایک ہزار سے تجاوز کر گئی ہے جب کہ صوبہ سندھ کے مختلف علاقوں میں بھی درجنوں افراد شدید گرم موسم سے متاثر ہو کر زندگی کی بازی ہار چکے ہیں۔
عروس البلاد کہلوانے والے کراچی میں پاکستان بھر سے لوگ روزگار کا رخ کرتے ہیں اور یہ شہر انھیں اپنی زندگی کا پہیہ چلانے کے مواقع فراہم کرتا ہے۔ لیکن دو کروڑ سے زائد آبادی والے اس شہر میں پیدا ہونے والی اس تازہ صورتحال نے انتظامی سقم کا پردہ فاش کر دیا ہے۔
ایسی شکایات نے بھی زور پکڑا ہے کہ گرم موسم سے متاثر ہو کر لقمہ اجل بننے والوں کو سپرد خاک کرنے کے لیے جہاں ایک طرف قبرستانوں میں جگہ کم ہو گئی ہے تو وہیں دوسری طرف قبروں کے لیے گورکن منہ مانگے دام وصول کر رہے ہیں۔ اس سے قبل سرد خانوں کی کمیابی کا تذکرہ بھی منظر عام پر آچکا ہے۔
اس سارے منظر کو بجلی کی طویل بندش نے بھی مزید دلخراش بنا دیا ہے جس پر صوبائی اور وفاقی حکومت کے درمیان دشنام ترازی کے علاوہ تادم تحریر کوئی ٹھوس اقدام دیکھنے میں نہیں آیا۔
کراچی کو بجلی کی فراہمی ایک نجی کمپنی "کے الیکٹرک" کی ذمہ داری ہے جس کے عہدیداروں کا کہنا ہے کہ شہر میں غیر قانونی طور پر بجلی کے استعمال کے علاوہ شدید گرم موسم کے باعث بجلی کی طلب اور رسد کے فرق میں اضافہ ہوا جس کی وجہ سے بجلی کی فراہمی میں تعطل پیدا ہو رہا ہے۔
سرکاری ذرائع ابلاغ کے مطابق لُو سے متاثرہ افراد کو فوری طبی امداد پہنچانے کے لیے کراچی سمیت سندھ میں 100 مراکز قائم کر دیے گئے ہیں جبکہ پاکستانی فوج اور رینجرز نے اپنے طور پر سینٹرز بنائے ہیں۔
آفات سے نمٹنے کے قومی ادارے "این ڈی ایم اے" کے سربراہ میجر جنرل اصغر نواز کا کہنا ہے کراچی کی انتظامیہ سے کہا گیا ہے کہ وہ قبرستانوں سے متعلق شکایات کے ازالے کے لیے فوری اقدام کرے۔
کراچی میں صحافیوں سے گفتگو میں انھوں نے اس بات پر زور دیا کہ قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے تمام متعلقہ اداروں اور محکموں کے ساتھ ساتھ لوگوں کو مناسب تیاری کرنے کی ضرورت ہے۔