پاکستان کے قومی ہیپٹائٹس کنٹرول پروگرام کے سربراہ کا کہنا ہے کہ ملک میں ہیپٹائٹس بی اور سی کے نئے مریضوں میں سے80 فیصد سرکاری اور نجی ہسپتالوں میں علاج معالجے کے دوران بداحتیاطیوں اور عطایئوں کی سرگرمیوں سے اس وائرس کا شکار ہورہےہیں۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ملک کی تقریباً ڈیڑھ کروڑ آبادی میں ہیپٹائٹس بی اور سی کا وائرس موجود ہے جنھیں یہ مرض اگرچہ پوری طرح لاحق نہیں لیکن آئندہ دس سے 30 سال کے عرصے میں ممکنہ طور پر اس کا شکار ہوسکتے ہیں۔
پروگرام کے سربراہ ڈاکٹر آفتاب محسن کا کہنا ہے کہ ہر سال ہیپٹائٹس سے متاثرہ لاکھوں نئے مریض سامنے آ رہے ہیں اور انتی ہی تعداد میں مریض اس بیماری سے پیدا ہونے والی پیچیگیوں خاص طور پر جگر کی خرابی سے ہلاک ہو رہے ہیں ۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں انہوں نے کہا ’’ ہیپٹائٹس کے پھیلاؤ کی سب سے بنیادی وجہ غیر محفوظ سرنجوں اور آلودہ طبی آلات کا استعمال ہے چاہے وہ مستند سرکاری اور نجی ہسپتالوں کا طبی عملہ کر رہا ہو یا پھر جعلی ڈاکٹر ‘‘۔
تاہم ان کا کہنا تھا کہ حکومت اس خطرے سے پوری طرح آگاہ ہے اور قومی ہیپٹائٹس کنٹرول پروگرام کا زور اس بات پر ہے کہ تحصیلوں اور اضلاع کی سطح پر ہسپتالوں میں قائم خصوصی کمیٹیاں اس بات کو یقینی بنائیں کہ کسی بھی بداحتیاطی سے یہ بیماری نا پھیلے۔
ڈاکٹر آفتاب کا کہنا تھا کہ سکریننگ کے بغیر غیر محفوظ خون کا انتقال اور ہسپتالوں کی استعمال شدہ اشیاء کو مناسب طریقے سے ٹھکانے نا لگانا بھی اس جان لیوا بیماری کے پیھلاؤ کے اسباب ہیں۔ انھوں نے مزید بتایا’’ ہیپٹائٹس جنسی تعلقات کے ذریعے ایک سے دوسرے فرد اور متاثرہ ماں سے پیدا ہونے والے بچے کو منتقل ہو سکتا ہے‘‘۔
پروگرام کے سربراہ نے بتایا کہ ہیپٹائٹس کی دیگر دو اقسام اے اور ای جو آلودہ پانی یا آلودہ غذا سے پھیلتی ہیں نسبتا کم خطرناک ہیں اور جان لیوا نہیں۔
پاکستان میڈیکل ریسرچ کونسل نے بھی اپنے ایک جائزے میں متنبہ کیا ہے کہ غیر محفوظ سرگرمیوں کی وجہ سے طبی عملہ نا صرف ہیپٹائٹس پھیلا رہا ہے بلکہ خود طبی کارکنوں کا کم از کم پندرہ فیصد اس وائرس سے متاثرہ ہے۔
ڈاکٹر آفتاب کہتے ہیں کہ ڈاکٹراور طبی عملہ ’’ہائی رسک گروپ‘‘ کے زمرے میں شامل ہے کیونکہ انھیں اپنے پیشے کی نوعیت کی باعث ہیپٹائٹس ہونے کے امکانات بہت زیادہ ہوتے ہیں۔