پاکستان کے نئے مالی سال کے بجٹ میں سگریٹ پر عائد ڈیوٹی میں اضافے کی تجویز پیش کی گئی ہے۔ اس اقدام سے سگریٹ نوش تو خوش نہیں لیکن ماہرین صحت اور ڈاکٹروں نے اس اقدام کا خیر مقدم کیا ہے۔
وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کی جانب سے قومی اسمبلی میں جمعے کی شام پیش کئے گئے بجٹ کے مطابق، سگریٹ پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کی موجودہ شرح کو بڑھا کر پہلی درجہ بندی کے سگریٹ پر 3964، دوسرے درجے کے سگریٹ پر 1770 اور تیسرے درجے کے سگریٹ پر 848 روپے کرنے کی تجویز زیر غور ہے۔
گزشتہ سال کے وفاقی بجٹ میں ایک ہزار دو درجے کے سگریٹ پر 1670 روپے ڈیوٹی عائد کی گئی تھی جبکہ نئے بجٹ میں یہ ڈیوٹی بڑھ کر 1770 روپے کردی گئی ہے۔ رواں برس ایک ہزار یکم درجے کے سگریٹوں کی قیمت میں 244 روپے اضافہ کیا گیا ہے، جبکہ ایک ہزار تیسری درجہ بندی کے سگریٹ کی قیمت میں بھی اس سال 48 روپے کا اضافہ کیا گیا ہے۔
سگریٹ کے نرخوں میں اضافے کا ’پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن‘ کے سکریٹری جنرل ڈاکٹر ایس ایم قیصر نے بھی خیر مقدم کیا ہے۔ ’وائس آف امریکہ‘ سے خصوصی گفتگو میں انہوں نے کہا کہ ’’پاکستان میں ہرسال 10لاکھ 8ہزار 8سو افراد تمباکو نوشی کے سبب ہلاک ہوجاتے ہیں، جبکہ سگریٹ نوشی سے ہر سال کالی کھانسی، سانس کے امراض، ذیابیطس، ہائی بلڈ پریشر، پھیپھڑ وں و منہ کے کینسر اور اس جیسی دیگر موذی اور جان لیوا بیماریوں میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔‘‘
ڈاکٹر ایس ایم قیصر کے مطابق ’’ان بیماریوں سے محفوظ رکھنے کا واحد حل سگریٹ کے استعمال میں کمی ہے۔ کمی کی بدولت ہی معاشرے کو ان بیماریوں سے تحفظ فراہم کیا جاسکتا ہے، کیونکہ احتیاط علاج سے بہتر ہے۔‘‘
اس سے قبل، اسٹیٹ بینک نے اپنی ایک رپورٹ میں تمباکو کی صنعت سے حاصل ہونے والے ٹیکس میں کمی کو تشویشناک قرار دیا، جبکہ وزارت صحت نے سگریٹ کے ہر پیکٹ پر44روپے ٹیکس عائد کرنے کی تجویز پیش کی تھی، تاکہ عام آدمی کے لئے سگریٹ کاحصول مشکل بنایا جا سکے۔
پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کا کہنا ہے کہ تمباکو انڈسٹری نے اپنے مفاد کے لئے سگریٹ کے کچھ برانڈ کی قیمتوں میں کمی کی ہے، تاکہ انہیں کم ٹیکس کے سلیب میں لایا جا سکے اور سگریٹ کے ہر پیکٹ پر عائد ٹیکس 16 روپے ہو جائے۔ اس اقدام سے سگریٹ کے استعمال اور طلب میں اضافہ ہوا ہےجو انسانی صحت کے لئے سراسر نقصان دے ہے۔
ڈاکٹر قیصر نے کہا کہ ’’تمباکو کسی بھی صورت میں استعمال کیا جائے وہ صحت کے لئے انتہائی مضر ہے۔‘‘ انہوں نے تجویز دی کہ’’سگریٹ کی قیمت عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہونی چاہئے۔ قیمت زیادہ ہوگی تو لوگ سگریٹ نوشی چھوڑنے کی کوشش کریں گے۔‘‘
پی ایم اے کی طرف سے تجاویز پیش کی گئی ہیں کہ سگریٹ کے ہر پیکٹ کے اسی فیصد حصے پر سگریٹ نوشی کیخلاف وارننگ چھاپی جائے۔
اٹھارہ سال سے کم عمر افراد کو سگریٹ کی فروخت پر پابندی عائد کی جائے۔
سگریٹ نوشی پر پابندی کا قانون2002 موجود تو ہے، لیکن اس کا نفاذ کہیں نظر نہیں آتا۔ اس قانون کے تحت عوامی مقامات اور جگہوں پر سگریٹ پینے پر پابندی ہے۔ لیکن، یہاں بھی اس قانون پر عملدرآمد نہیں ہوتا، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ سگریٹ نہ پینے والا بھی ماحول میں پھیلے تمباکو کے دھویں سے اتنا ہی متاثر ہوتا ہے جتنا سگریٹ پینے والا خود ہوتا ہے۔ اسے ’پیسو اسموکنگ‘ کہا جاتا ہے۔
دوسری جانب، جو لوگ سگریٹ کے عادی ہیں، وہ اس بات سے اتفاق نہیں کرتے کہ قیمت بڑھنے سے لوگوں کی تمباکو نوشی میں کمی آجائے گی۔ ایک سگریٹ نوش نے بتایا کہ ’’جنہیں نشہ کرنا ہے وہ ہر قیمت پر کریں گے، نشہ لت ہے اور لت مشکل سے ہی چھوڑتی ہے۔ ایک دور میں سگریٹ کا پیکٹ پانچ چھ روپے میں ملتا تھا اور اب اس کی قیمت ڈبل ہوگی تو کیا لوگوں نے سگریٹ نوشی چھوڑ دی؟‘‘