پاکستان کی وزیر خارجہ حنا ربانی کھر بدھ کو افغانستان کے سرکاری دورے پر جائیں گی جہاں افغان رہنماؤں کے ساتھ اُن کی بات چیت میں دہشت گردی کے خلاف جنگ اور قیام امن کے سلسلے میں مفاہمتی عمل کے لیے اسلام آباد کی حمایت سمیت دوطرفہ تعلقات سے متعلق اُمور زیر بحث آئیں گے۔
افغان وزارت خارجہ کے ترجمان جانان موسٰی زئی نے اتوار کو کابل میں صحافیوں کو بتایا کہ اپنے افغان ہم منصب ظلمے رسول کے ساتھ باضابطہ بات چیت کے علاوہ پاکستانی وزیر خارجہ صدر حامد کرزئی سے بھی ملاقات کریں گی۔
’’یہ دورہ دونوں ملکوں کے درمیان تعاون کے ایک نئے باب کی شروعات ہوگا۔ طرفین دہشت گردی کے خلاف جنگ اور افغانستان میں امن عمل کے لیے پاکستان کی ناگزیر حمایت پر بات چیت کریں گے۔‘‘
اُنھوں نے کہا کہ افغان امن عمل میں پاکستان کا کلیدی کردار ہے اور امن مذاکرات کی طرف پیش رفت کے لیے ’’افغانستان کو اپنے ہمسایہ ملک کی ایک مخلصانہ کوشش درکار ہے‘‘۔
پاکستانی وزیر خارجہ آئندہ ہفتے ایک ایسے وقت افغانستان کا دورہ کر رہی ہے جب افغان طالبان نے حال ہی میں یہ انکشاف کیا ہے کہ اُن کے نمائندوں اور امریکی حکام کے درمیان ابتدائی رابطوں کے نتیجے میں امن بات چیت شروع کرنے سے پہلے طالبان نے قطر کے دارالحکومت دوحہ میں اپنا ایک سیاسی دفتر کھولنے پرآمادگی ظاہر کر دی ہے۔
اطلاعات کے مطابق امریکی حکام کےساتھ بات چیت کو ممکن بنانے کے لیے پاکستان نے بھی کردار ادا کیا ہے کیونکہ طالبان کے نمائندے اس مشن پر براستہ پاکستان قطر گئے ہیں۔ لیکن نہ تو امریکہ اور نہ ہی پاکستان نے ان اطلاعات کی تصدیق کی ہے۔
گزشتہ ہفتے پاکستانی دفتر خارجہ کے ترجمان عبدالباسط نے ایک نیوز کانفرنس سے خطاب میں امریکہ اور طالبان کے درمیان رابطوں میں اسلام آباد کے کردار سے متعلق پوچھے گئے سوالات کا براہ راست جواب دینے سے گریز کرتے ہوئے صرف اتنا کہا تھا کہ پاکستان افغانستان میں قیام امن کے لیے کسی بھی ایسی کوشش کی حمایت کرے گا جس کی قیادت خود افغان کریں گے۔
پاکستانی ترجمان کے بقول افغانستان میں امن صرف طاقت کے استعمال سے نہیں آسکتا اس لیے ضروری ہے کہ مفصل امن مذاکرات کا سلسلہ شروع کیا جائے جس میں تمام فریقوں کو نمائندگی حاصل ہو۔
امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے انکشاف کیا ہے کہ امریکی حکام اور طالبان کے نمائندوں کے درمیان قطر میں ہونے والی ابتدائی ملاقاتوں میں اعتماد سازی سے متعلق اقدامات اور قیدیوں کی مکمنہ رہائی پر بھی تجاویز کا تبادلہ ہوا ہے۔
طالبان کا کہنا ہے کہ وہ امریکی جیل، گوانتانامو بے سے اپنے قیدیوں کی رہائی چاہتے ہیں لیکن کابل کے حالیہ دورے کے دوران امریکی خصوصی ایلچی مارک گراسمین نے واضح کیا تھا کہ طالبان قیدیوں کی رہائی کے بارے میں امریکہ نے ابھی کوئی فیصلہ نہیں کیا ہے۔ ان کے بقول قطر میں طالبان کا دفتر کھولنے سے قبل عسکریت پسندوں کو بین الاقوامی دہشت گردوں سے لاتعلقی اور افغانستان میں جنگ کے خاتمے کے لیے امن مذاکرات میں اپنی شمولیت کا واضح اعلان کرنا ہوگا۔