ڈاکٹر سعید کا کہنا تھا کہ جو لوگ ایچ آئی وی ایڈز سے متاثر ہوتے ہیں ان میں یہ علامات آٹھ سے دس سال میں ظاہر ہوتی ہیں اور وہ اس عرصے میں اور بہت سے لوگوں کو اس سے متاثر کر چکے ہوتے ہیں۔
اسلام آباد —
اقوام متحدہ کی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں تو ایچ آئی وی سے متاثرہ افراد کی تعداد میں ڈرامائی کمی ریکارڈ کی گئی ہے لیکن پاکستان میں صورتحال ابھی بھی تسلی بخش نہیں اور ماہرین کا کہنا ہے کہ ہر سال اس سے متاثرہ کیسز کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے۔
عالمی ادارے کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے دنیا بھر میں ایچ آئی وی/ایڈز سے متاثر ہونے والوں کی تعداد میں قابل ذکر کمی واقع ہوئی اور 2012ء میں یہ تعداد تقریباً 23 لاکھ رہی جب کہ 2011ء میں اس وائرس کا شکار ہونے والوں کی تعداد 25 لاکھ تھی۔
عالمی ادارہ صحت ’ڈبلیو ایچ او‘ کے پاکستان میں نیشنل پروگرام آفیسر برائے ایچ آئی وی ایڈز ڈاکٹر قائد سعید نے بدھ کو وائس آف امریکہ سےگفتگو میں کہا کہ گوکہ پاکستان میں ایڈز سے متاثرہ مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے لیکن تسلی بخش امر یہ ہے کہ فی الوقت یہ صرف مخصوص معاشرتی گروپس تک ہی محدود ہے۔
’’اچھی بات یہ ہے کہ پاکستان میں صرف یہ ہائی رسک گروپ میں ہی موجود ہے اور عام لوگوں تک نہیں پھیل رہا۔ اس گروپ میں سرنج کے ذریعے نشے کے عادی، اور جسم فروشی سے وابستہ افراد شامل ہیں۔‘‘
انھوں نے بتایا کہ ان کے ادارے کے اندازوں کے مطابق پاکستان میں اس وقت ایک لاکھ 20 ہزار کے لگ بھگ لوگ آئی ایچ وی سے متاثرہ ہوسکتے ہیں جب کہ اندراج شدہ کیسز کی تعداد چھ سے سات ہزار کے درمیان ہے۔
ڈاکٹر سعید کا کہنا تھا کہ جو لوگ ایچ آئی وی ایڈز سے متاثر ہوتے ہیں ان میں یہ علامات آٹھ سے دس سال میں ظاہر ہوتی ہیں اور وہ اس عرصے میں اور بہت سے لوگوں کو اس سے متاثر کر چکے ہوتے ہیں۔
تاہم عالمی ادارے کے عہدیدار کے بقول خطے کے دیگر ممالک کی نسبت پاکستان میں ایچ آئی وی اور ایڈز کی صورتحال بہتر ہے۔
’’بھارت میں کچھ ریاستوں میں تو یہ عام لوگوں میں بھی پھیل چکا ہے، پاکستان اس حوالے سے بہتر ہے یہاں انفیکشن ریٹ کم ہے۔ بنگلہ دیش اور ایران میں بھی انفیکشن ریٹ بہت زیادہ ہے، ہاں صرف افغانستان ایسا ملک ہے جہاں یہ بہت ہی کم ہے۔‘‘
اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق دنیا بھرمیں اس وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد تقریباً تین کروڑ 53 لاکھ ہے۔
عالمی ادارے کی رپورٹ کے مطابق 2012ء میں اس مرض میں مبتلا ہوکر مرنے والوں کی تعداد 16 لاکھ تھی جب کہ اس سے ایک سال قبل یہ تعداد 17 لاکھ رہی۔ 2005ء میں ایڈز سے متاثرہ تقریباً 23 لاکھ افراد موت کا شکار ہوگئے تھے۔
جان لیوا بیماری ایڈز کا سبب بننے والا ایچ آئی وی ’’ہیومن امینوڈیفشنسی وائرس‘‘ غیر محفوظ انتقال خون، غیر محتاط جنسی روابط اور استعمال شدہ سرنج کے دوبارہ استعمال سے ایک انسان سے دوسرے انسان میں منتقل ہوتا ہے۔
ڈاکٹر سعید کہتے ہیں کہ ملک بھر میں ایچ آئی وی کی تشخیص اور علاج کے لیے 17 مراکز صحت قائم ہیں جہاں پر یہ سہولتیں بلامعاوضہ فراہم کی جارہی ہیں۔
اس بیماری کو مختلف ادویات اور طریقہ علاج سے کسی حد تک بڑھنے سے روکا جاسکتا ہے اور لوگوں میں اس بارے میں آگاہی اور انھیں احتیاطی تدابیر اپنانے پر آمادہ کرنے سے بھی اس وائرس کے پھیلاؤ سے بچا جاسکتا ہے۔
عالمی ادارے کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے دنیا بھر میں ایچ آئی وی/ایڈز سے متاثر ہونے والوں کی تعداد میں قابل ذکر کمی واقع ہوئی اور 2012ء میں یہ تعداد تقریباً 23 لاکھ رہی جب کہ 2011ء میں اس وائرس کا شکار ہونے والوں کی تعداد 25 لاکھ تھی۔
عالمی ادارہ صحت ’ڈبلیو ایچ او‘ کے پاکستان میں نیشنل پروگرام آفیسر برائے ایچ آئی وی ایڈز ڈاکٹر قائد سعید نے بدھ کو وائس آف امریکہ سےگفتگو میں کہا کہ گوکہ پاکستان میں ایڈز سے متاثرہ مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے لیکن تسلی بخش امر یہ ہے کہ فی الوقت یہ صرف مخصوص معاشرتی گروپس تک ہی محدود ہے۔
’’اچھی بات یہ ہے کہ پاکستان میں صرف یہ ہائی رسک گروپ میں ہی موجود ہے اور عام لوگوں تک نہیں پھیل رہا۔ اس گروپ میں سرنج کے ذریعے نشے کے عادی، اور جسم فروشی سے وابستہ افراد شامل ہیں۔‘‘
انھوں نے بتایا کہ ان کے ادارے کے اندازوں کے مطابق پاکستان میں اس وقت ایک لاکھ 20 ہزار کے لگ بھگ لوگ آئی ایچ وی سے متاثرہ ہوسکتے ہیں جب کہ اندراج شدہ کیسز کی تعداد چھ سے سات ہزار کے درمیان ہے۔
ڈاکٹر سعید کا کہنا تھا کہ جو لوگ ایچ آئی وی ایڈز سے متاثر ہوتے ہیں ان میں یہ علامات آٹھ سے دس سال میں ظاہر ہوتی ہیں اور وہ اس عرصے میں اور بہت سے لوگوں کو اس سے متاثر کر چکے ہوتے ہیں۔
تاہم عالمی ادارے کے عہدیدار کے بقول خطے کے دیگر ممالک کی نسبت پاکستان میں ایچ آئی وی اور ایڈز کی صورتحال بہتر ہے۔
’’بھارت میں کچھ ریاستوں میں تو یہ عام لوگوں میں بھی پھیل چکا ہے، پاکستان اس حوالے سے بہتر ہے یہاں انفیکشن ریٹ کم ہے۔ بنگلہ دیش اور ایران میں بھی انفیکشن ریٹ بہت زیادہ ہے، ہاں صرف افغانستان ایسا ملک ہے جہاں یہ بہت ہی کم ہے۔‘‘
اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق دنیا بھرمیں اس وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد تقریباً تین کروڑ 53 لاکھ ہے۔
عالمی ادارے کی رپورٹ کے مطابق 2012ء میں اس مرض میں مبتلا ہوکر مرنے والوں کی تعداد 16 لاکھ تھی جب کہ اس سے ایک سال قبل یہ تعداد 17 لاکھ رہی۔ 2005ء میں ایڈز سے متاثرہ تقریباً 23 لاکھ افراد موت کا شکار ہوگئے تھے۔
جان لیوا بیماری ایڈز کا سبب بننے والا ایچ آئی وی ’’ہیومن امینوڈیفشنسی وائرس‘‘ غیر محفوظ انتقال خون، غیر محتاط جنسی روابط اور استعمال شدہ سرنج کے دوبارہ استعمال سے ایک انسان سے دوسرے انسان میں منتقل ہوتا ہے۔
ڈاکٹر سعید کہتے ہیں کہ ملک بھر میں ایچ آئی وی کی تشخیص اور علاج کے لیے 17 مراکز صحت قائم ہیں جہاں پر یہ سہولتیں بلامعاوضہ فراہم کی جارہی ہیں۔
اس بیماری کو مختلف ادویات اور طریقہ علاج سے کسی حد تک بڑھنے سے روکا جاسکتا ہے اور لوگوں میں اس بارے میں آگاہی اور انھیں احتیاطی تدابیر اپنانے پر آمادہ کرنے سے بھی اس وائرس کے پھیلاؤ سے بچا جاسکتا ہے۔