پاکستان ہاکی ٹیم نے ایشین گیمز کے فائنل میں رسائی حاصل کر کے ملک میں ہاکی کو ایک بار پھر زندہ کر دیا جہاں اس کا آخری معرکہ جمعرات کو ملائیشیا کے ساتھ ہو گا ۔ قوم نے بیس سال کے انتظار کے بعد ایک بار پھر گرین شرٹس سے امیدیں وابستہ کر لیں اور جشن منانے کیلئے تیاریاں شروع کر دی ہیں ۔ ماہرین کے مطابق اگر پاکستانی ٹیم نے کھیل کا معیار برقرار رکھا تو کوئی وجہ نہیں کہ وہ اپنا کھویا ہوا مقام دوبارہ حاصل نہ کر سکے۔
قومی ٹیم کے کپتان ذیشان اشرف کا کہنا ہے کہ "ملائیشیا کے ساتھ فائنل آسان نہیں ہو گا کیونکہ اس نے بھارت جیسی ٹیم کو شکست دے کر یہ مقام حاصل کیا ہے ۔ ہم جیت کا جذبہ لیکر وطن سے آئے تھے ، بھارت ہو یا جنوبی کوریا ہر ٹیم کو ہرانے کی کوشش کی ۔قوم کی دعائیں ساتھ ہیں اور پورے جذبہ سے فائنل میں ملائیشیا کے مد مقابل میدان میں اتریں گے"
پاکستانی ٹیم کوملائیشیا پر نفسیاتی برتری حاصل ہے تاہم سیمی فائنل میں بھارت کے دانت کھٹے کرنے کے بعد حریف ٹیم کے بھی حوصلے بلند ہیں ۔1990 کے بعدپاکستان پہلی مرتبہ ایشین گیمز کے فائنل میں پہنچا ہے اور اس کے پاس یہ ٹائٹل جیتنے کا نادر موقع ہے کیونکہ اگر ملائیشیا کے بجائے بھارت فائنل میں مدمقابل ہوتا تو پاکستان نفسیاتی طور پر دباؤ میں ہوتا ، بھارت رواں سال قومی ٹیم کو مسلسل چار میچوں میں زیر کر چکا ہے ۔
پاکستان کی موجودہ ٹیم سینئر کھلاڑیوں پر مشتمل ہے اور حالیہ ایونٹ کے بعد پانچ کھلاڑی ریٹائر ہو جائیں گے ، اگر پاکستان یہ فتح حاصل کرتا ہے تو اولمپکس 2012 میں بھی بغیر کوالیفائی راؤنڈ کھیلے پہنچ جائے گا کیونکہ اولمپکس رولز کے مطابق اگر کوئی ٹیم دس ٹیموں پر مشتمل کوئی ایونٹ اپنے نام کرتی ہے تو اسے اولمپکس کوالیفائی راؤنڈ کھیلنے کی ضرورت نہیں پڑتی تاہم شکست کی صورت میں آئندہ دو سالوں میں کوئی بھی بڑا ایونٹ نہیں آئے گا اور پاکستان کو نئے کھلاڑیوں کے ساتھ اولمپکس کوالیفائی راؤنڈ میں سخت جدوجہد کرنی پڑے گی ۔ ریٹائرڈ ہونے والے پانچ سینئرز کیلئے بھی یہ نایاب موقع ہے کہ وہ پاکستان کو گولڈ میڈل دلا کر تاریخ میں اپنا نام امر کردیں ۔
اگر دونوں ٹیموں کا ایشین گیمز میں موازنہ کیا جائے تو پاکستان ٹیم کاپلڑا ملائیشیا کے مقابلے میں کہیں بھاری ہے ۔اب تک تیرہ ایشین گیمز کا انعقاد ہوا ۔پاکستان نے سات مرتبہ گولڈ میڈلز حاصل کیے جبکہ دو مرتبہ چاندی اور ایک بار کانسی کا تمغہ اس کے حصے میں آیا ۔
دوسری جانب ایشین گیمز کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ملائیشیا نے فائنل تک رسائی حاصل کی ہے تاہم چھ مرتبہ اس نے تیسری پوزیشن حاصل کر رکھی ہے ۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ دو ہزار دو کے گیمز میں چوتھی پوزیشن کے میچ میں گرین شرٹس کو ملائیشیا کے ہاتھوں ہی شکست کا مزا چکھنا پڑا تھا اور یہ تیرہ ایونٹ میں پہلا موقع تھا جب ملائیشیا نے پاکستان کو پہلی تینوں پوزیشنز سے محروم کیا تھا۔
ایشین گیمز میں پاکستان کی کارکردگی کی بات کی جائے تو 1958 میں گیمز کے آغاز سے ہی گرین شرٹس نے اپنی کامیابیوں کا سفر شروع کر دیا جو 1990 تک جاری رہا ، اس دوران نو گیمز منعقد ہوئے جس میں سے سات مرتبہ پاکستانی قوم نے جشن منایا جبکہ دو مرتبہ سلورمیڈل حاصل کیے ۔ اس دوران پاکستان اور بھارت آٹھ مرتبہ فائنل میں مدمقابل آئے ، سات مرتبہ فتح گرین شرٹس کے حصے میں آئی اور ایک مرتبہ اسے بھارت سے شکست ہوئی ۔ دوسری شکست کوریا سے ہوئی تھی ۔ 1990 کے بعد پاکستانی ٹیم کا زوال شروع ہو گیا اور ایشین گیمز میں اس کی ساری دہشت ختم ہو گئی ۔ اس کے بعد چار مرتبہ ایشین گیمز کا انعقادہوا تاہم گرین شرٹ آخری چاروں مرتبہ فائنل میں نہ پہنچ سکی۔
اب ایک بار پھر جنوبی کوریا کو شکست دے کر پاکستانی ٹیم نے ایشین گیمز کے فائنل میں رسائی حاصل کی ہے تاہم دوسری جانب بھارت کو کانٹے کے مقابلے کے بعد شکست دینے والی ملائیشیا کھڑی ہے جو گرین شرٹس کے لئے تر نوالہ ثابت نہیں ہو گی ۔
مبصرین کے مطابق اگر پاکستانی ٹیم نے میدان میں کوچز اور کپتان کی مرتب کردہ حکمت عملی پر عمل کیا تو کوئی وجہ نہیں کہ جیت پاکستان کے قدم نہ چومے ۔ اس کے علاوہ گول کیپر نے جس طرح جنوبی کوریا کے خلاف قابل رشک کارکردگی پیش کی وہ بھی تسلسل کے ساتھ جاری رہنی چاہیے ۔