زہرہ یوسف نے مزید کہا کہ ایچ آر سی پی ہزارہ برادری کے دکھ میں برابر کا شریک ہے اور بے شمار قیمتی جانوں کے ضیاع کے باوجود انصاف کے حصول کے پرامن ذرائع پر ان کے پختہ یقین کو خراج تحسین پیش کرتا ہے۔
اسلام آباد —
پاکستان میں ہزارہ شیعہ برادری پر کوئٹہ میں ہونے والے بم دھماکے میں 80 سے زائد ہلاکتوں کے خلاف ملک میں پیر کو احتجاج کیا گیا اور اس مہلک حملے کی نا صرف اندرون ملک بلکہ عالمی سطح پر بھی مذمت جاری ہے۔
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے اپنے ایک بیان میں کوئٹہ میں شیعہ ہزارہ برادری پر دہشت گردانہ حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان میں مذہب اور فرقہ واریت کی بنیاد پر ان حملوں کی ذمہ داری قبول کرنے والوں کے خلاف تیز اور مؤثر کارروائی ہونی چاہیئے۔
انسانی حقوق کی سرگرم تنظیم ہیومین رائٹس کمیشن آف پاکستان کی سربراہ زہرہ یوسف نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ ہزارہ برادری پر حملے کی مذمت کرنے کے لیے ایچ آر سی پی کے پاس الفاظ نہیں ہیں۔
’’مذمت کر کر کے اب الفاظ نہیں بچے ہیں اور یہ اس سال کا دوسرا بڑا واقعہ ہے، پہلے واقعے کے بعد ہزارہ برادری کے مطالبے پر گورنر راج نافظ کر دیا گیا لیکن ایک مہینے کے بعد یہ دوسرا اتنا بڑا حملہ ہوا ہے یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ کوئٹہ شہر میں فرنٹئیر کور موجود ہے اور خفیہ ادارے بھی موجود ہیں، کسی کے پاس اس کا جواب نہیں ہے کہ کیوں وہ ان واقعات کو روک نہیں پاتے۔‘‘
زہرہ یوسف نے مزید کہا ’’ایچ آر سی پی ہزارہ برادری کے دکھ میں برابر کا شریک ہے اور بے شمار قیمتی جانوں کے ضیاع کے باوجود انصاف کے حصول کے پرامن ذرائع پر ان کے پختہ یقین کو خراج تحسین پیش کرتا ہے۔ موجودہ مایوس کن حالات کے باوجود پاکستان کے عوام حکومت سے توقع کرتے ہیں کہ وہ ہزارہ برادری کو عقیدے کے نام پر تشدد پھیلانے والوں سے تحفظ فراہم کرے گی۔‘‘
شیعہ برادری کے ایک اہم رہنماء علامہ امین شہیدی نے پیر کو ایک نیوز کانفرنس میں اپنے مطالبات دہراتے ہوئے کہا کہ اس شہر کو آپ فوج کے حوالے کر دیا جانا چاہیئے۔
’’وہ ٹارگٹڈ آپریشن شروع کریں، شہر کے اندر بھی اور شہر کے باہر ان علاقوں کی بھی جہاں دہشتگردوں کی پناہ گاہیں ہیں اور مذہبی منافرت پھیلانے والے اور شیعہ نسل کشی کرنے والے تمام گروپوں کا صفایا کیا جائے۔‘‘
وفاقی وزیر خورشید شاہ نے صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ کوئٹہ میں فوجی تعیناتی مسئلہ کا حل نہیں اور ان کے بقول ایسے مہلک حملوں کو بہتر قبل از وقت انٹیلی جنس معلومات ہی سے روکا جا سکتا ہے۔
’’سچی بات تو یہ ہے کہ اس میں ہمارے خفیہ اداروں کی ناکامی ہے اس دنیا کی کوئی بات چھپی نہیں رہتی کہ کون کہاں پر چھپا بیٹھا ہے آسمان سے بھی ہم دیکھ سکتے ہیں۔‘‘
پاکستان کے تمام بڑی سیاسی جماعتوں نے کوئٹہ میں ہونے والے اس مہلک حملے کی شدید مذمت کی ہے۔ صدر آصف علی زرداری نے بھی پیر کو بلوچستان کے گورنر ذوالفقار مگسی سے ٹیلی فون پر رابطہ کیا اور ان سے کوئٹہ بم دھماکے کی بعد کی صورت حال پر بات چیت کی۔
سرکاری بیان کے مطابق صدر نے گورنر سے کہا کہ ہزارہ شیعہ برادری کے تحفظ کے لیے ہر ممکن اقدامات کیے جائیں۔
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے اپنے ایک بیان میں کوئٹہ میں شیعہ ہزارہ برادری پر دہشت گردانہ حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان میں مذہب اور فرقہ واریت کی بنیاد پر ان حملوں کی ذمہ داری قبول کرنے والوں کے خلاف تیز اور مؤثر کارروائی ہونی چاہیئے۔
انسانی حقوق کی سرگرم تنظیم ہیومین رائٹس کمیشن آف پاکستان کی سربراہ زہرہ یوسف نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ ہزارہ برادری پر حملے کی مذمت کرنے کے لیے ایچ آر سی پی کے پاس الفاظ نہیں ہیں۔
’’مذمت کر کر کے اب الفاظ نہیں بچے ہیں اور یہ اس سال کا دوسرا بڑا واقعہ ہے، پہلے واقعے کے بعد ہزارہ برادری کے مطالبے پر گورنر راج نافظ کر دیا گیا لیکن ایک مہینے کے بعد یہ دوسرا اتنا بڑا حملہ ہوا ہے یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ کوئٹہ شہر میں فرنٹئیر کور موجود ہے اور خفیہ ادارے بھی موجود ہیں، کسی کے پاس اس کا جواب نہیں ہے کہ کیوں وہ ان واقعات کو روک نہیں پاتے۔‘‘
زہرہ یوسف نے مزید کہا ’’ایچ آر سی پی ہزارہ برادری کے دکھ میں برابر کا شریک ہے اور بے شمار قیمتی جانوں کے ضیاع کے باوجود انصاف کے حصول کے پرامن ذرائع پر ان کے پختہ یقین کو خراج تحسین پیش کرتا ہے۔ موجودہ مایوس کن حالات کے باوجود پاکستان کے عوام حکومت سے توقع کرتے ہیں کہ وہ ہزارہ برادری کو عقیدے کے نام پر تشدد پھیلانے والوں سے تحفظ فراہم کرے گی۔‘‘
شیعہ برادری کے ایک اہم رہنماء علامہ امین شہیدی نے پیر کو ایک نیوز کانفرنس میں اپنے مطالبات دہراتے ہوئے کہا کہ اس شہر کو آپ فوج کے حوالے کر دیا جانا چاہیئے۔
’’وہ ٹارگٹڈ آپریشن شروع کریں، شہر کے اندر بھی اور شہر کے باہر ان علاقوں کی بھی جہاں دہشتگردوں کی پناہ گاہیں ہیں اور مذہبی منافرت پھیلانے والے اور شیعہ نسل کشی کرنے والے تمام گروپوں کا صفایا کیا جائے۔‘‘
وفاقی وزیر خورشید شاہ نے صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ کوئٹہ میں فوجی تعیناتی مسئلہ کا حل نہیں اور ان کے بقول ایسے مہلک حملوں کو بہتر قبل از وقت انٹیلی جنس معلومات ہی سے روکا جا سکتا ہے۔
’’سچی بات تو یہ ہے کہ اس میں ہمارے خفیہ اداروں کی ناکامی ہے اس دنیا کی کوئی بات چھپی نہیں رہتی کہ کون کہاں پر چھپا بیٹھا ہے آسمان سے بھی ہم دیکھ سکتے ہیں۔‘‘
پاکستان کے تمام بڑی سیاسی جماعتوں نے کوئٹہ میں ہونے والے اس مہلک حملے کی شدید مذمت کی ہے۔ صدر آصف علی زرداری نے بھی پیر کو بلوچستان کے گورنر ذوالفقار مگسی سے ٹیلی فون پر رابطہ کیا اور ان سے کوئٹہ بم دھماکے کی بعد کی صورت حال پر بات چیت کی۔
سرکاری بیان کے مطابق صدر نے گورنر سے کہا کہ ہزارہ شیعہ برادری کے تحفظ کے لیے ہر ممکن اقدامات کیے جائیں۔