نسانی اعضاء کی پیوندکاری کے بل پر صدر آصف علی زرداری نے رواں ہفتے دستخط کیے تھے جس کے تحت انسانی اعضاء کی ملک میں یا ملک سے باہر فروخت کو ممنوع قرار دیتے ہوئے قانونی طور پر اعضاء کی پیوندکاری کے حوالے سے ایک باقاعدہ ضابطہ کار مقرر کیا گیا ہے۔ وفاقی وزیر صحت مخدوم شہاب الدین کا کہنا ہے حکومت نے جس سنجیدگی سے اس قانون کو بنایا اُسی طرح اس پر مکمل عمل درآمد کو بھی یقینی بنایا جائے گا ۔ اُنھوں نے کہا کہ انسانی اعضاء کی پیوندکاری صرف مخصوص اور حکومت کے منظور کردہ اداروں میں ہی ہوسکے گی۔
شائع شدہ اطلاعات کے مطابق نئے قانون کے تحت انسانی اعضاء کی غیر قانونی پیوندکاری میں ملوث پائے جانے والوں کے لیے تین سے دس سال قید اور تین سے دس لاکھ روپے جرمانے کی سزائیں متعین ہیں۔ انسانی اعضاء کی پیوندکاری اب صرف ملک کے 42مستند اداروں میں کی جاسکے گی اور اس سے پہلے متعلقہ کمیٹیاں معاملے کی مکمل تصدیق اور جانچ پڑتال کریں گی۔ کسی بھی ڈاکٹر کی طرف سے خلاف ورزی کی صورت میں پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل اس کی رجسٹریشن منسوخ کردے گی اور اس کے خلاف قرارواقع کارروائی کی جائے گی۔
قانون کے تحت صرف رضاکار اپنے اعضاء کو اپنی زندگی میں یا مرنے کے بعد اپنے ضرورت مند رشتے داروں جیسے کہ والدین، بچے، بہن، بھائی،شوہر یا کسی دوسرے رشتے دار کو معالجاتی مقاصد کے لیے عطیہ کرسکتا ہے۔
انسانی اعضاء کی غیر قانونی پیوندکاری کو روکنے کے لیے رواں ہفتے بننے والے قانون کے بارے میں مسلم لیگ (ق) کی رکن قومی اسمبلی عطیہ عنایت اللہ نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ اس بل کو بنانے میں حکومت ، پارلیمان اور سول سوسائٹی نے ایک اہم کردار ادا کیا ہے اور یہ تمام قوتیں مل کر ہی اس پر عمل درآمد کو بھی یقینی بنائیں گی۔
حکمران جماعت پاکستان پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والی رکن قومی اسمبلی جسٹس ریٹائرڈ فخرالنساء کھوکھر کا کہنا ہے کہ پارلیمان نے یہ قانون بنا کر اپنے حصے کا کام تو کردیا اب یہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس پر عمل درآمد کو یقینی بنائیں۔
حکومتی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ انسانی اعضاء کی غیر قانونی پیوندکاری کے خلاف قانون سازی سے تقریباً 50ہزار مریضوں کے لیے زندگی کی امید پیدا ہوگی جو ہرسال عطیہ کردہ اعضاء کی عدم دستیابی کے باعث مرجاتے تھے اور ان میں تقریباً15ہزار گردوں کی خرابی ،دس ہزار پھیپھڑوں اور ساڑھے چھ ہزار دل کے امراض کے باعث ہلاک ہورہے تھے۔
ٹرانسپلانٹیشن سوسائٹی کے صدر ڈاکٹر ادیب رضوی کاکہنا ہے کہ ملک میں انسانی اعضاء کی غیر قانونی پیوندکاری کے بڑھتے ہوئے کاروبار کی وجہ سے پاکستان دنیا میں اعضاء کی سستی ترین منڈی کے طور پر جانا جارہا تھا۔تاہم حکومتی عہدیدا پراعتماد ہیں کہ نئے قوانین کے اطلاق سے یہ بدنامی ختم ہوگی اور ملکی وقار بحال ہوگا۔
وزارت صحت نے عوام سے بھی اپیل کی ہے کہ وہ انسانی اعضاء کی غیر قانونی پیوندکاری کو روکنے کے لیے بنائے جانے والے اس قانون پر عمل درآمد کے لیے اُس کے ساتھ کریں جب کہ حکام کا یہ بھی کہنا ہے کہ لوگوں میں رضاکارانہ طور پر انسانی اعضاء عطیہ کرنے کے حوالے سے آگاہی پیدا کی کوشش کی جارہی ہے۔