بہتر ذریعہ معاش کے متلاشی نوجوانوں اور جنسی تجارت کے لیے زیادہ تر خواتین و بچوں کی اسمگلنگ میں ملوث گروہوں کے لیے پاکستان بدستور ایک منزل مقصود، راہداری اور منبع مانا جاتا ہے۔ تاہم انسانی اسمگلنگ کی دیگر اقسام کے مقابلے میں پاکستان میں زیادہ تر ایسے افراد کی اسمگلنگ کے واقعات پیش آتے ہیں جو بہتر روزگار کی تلاش میں غیر قانونی طریقوں سے یورپ اور مشرق وسطیٰ کے ملکوں کا سفر کرنے کے خواہش مند ہوتے ہیں۔
اس کے علاوہ ہمسایہ ملک افغانستان میں بھی اقتصادی بدحالی اور امن وامان کی خراب صورت حال سے پریشان وہاں کے باشندوں کو مغربی اور خلیجی ممالک کی طرف اسمگل کرنے کے لیے پاکستان کو راہداری کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے کیونکہ دونوں ملکوں کے درمیان 2400 کلومیٹر طویل سرحد پر صرف چمن اور طورخم کے مقام پر دو امیگریشن پوسٹیں ہیں اور ان پھر بھی محض پانچ فیصد افراد بین الاقوامی مسافر ہوتے ہیں۔
یورپ میں ویزا اور امیگریشن کے نظام میں موثر تبدیلیوں کے بعد پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ حالیہ برسوں میں اہم قانون سازی کے علاوہ امریکہ، برطانیہ اور آسٹریلیا جیسے ممالک کے تعاون سے خصوصاً ہوائی اڈوں پر جدید مشینری کی تنصیب کی مدد سے جعلی سفری دستاویزات کی بیناد پر ہوائی راستوں سے پاکستان سے انسانی اسمگلنگ کو انتہائی مشکل بنا دیا گیا ہے۔
وفاقی تحقیقاتی ادارے میں امیگریشن ڈائریکٹر ظفر اقبال اعوان کہتے ہیں کہ ان اقدامات کے بعد اب انسانی اسمگلنگ کے لیے زیادہ تر غیرقانونی سرحدی راہداریوں پر انحصار کیا جاتا ہے۔
’’یہ ایک عالمی مسئلہ، منظم جرم اور بڑا منافع بخش کاروبار اور پیسہ کمانے کا آسان طریقہ ہے جس میں ایجنٹس کے پورے پورے نیٹ ورکس ملوث ہیں۔ بہتر معاشی مستقبل، غربت اور امن وامان کی خراب صورتحال کی وجہ سے اکثر لوگ بیرون ملک جانے کی کوششیں کرتے ہیں۔ یہ جو ایجنٹس ہیں جو نیٹ ورکس ہیں وہ بجائے ان کو قانونی طریقے سے باہر لے جائیں ان کو غیر قانونی طریقوں پر لگا دیتے ہیں اور اس سارے عمل میں بہت سارے پیسے ملوث ہوتے ہیں‘‘۔
ظفر اعوان کہتے ہیں کہ ایران کے ساتھ پاکستان کی سرحد 900 کلومیٹر طویل ہے جہاں سے انسانی اسمگلنگ میں ملوث نیٹ ورکس کی سرگرمیاں سب سے زیادہ ہیں کیونکہ صرف تافتان کے مقام پر دونوں ملکوں کے درمیان امیگریشن مرکز ہے اور وہ بھی سہولتوں کے فقدان کا شکار ہے۔ ان کے بقول یہ حالات انسانی اسمگلنگ میں ملوث گروہوں کے لیے خاصی کشش کا باعث ہیں۔
’’پاکستان میں بلوچستان سے ایران پھر ترکی اور پھر وہاں سے یونان یہ ایک روایتی راستہ رہا ہے اور جب اسمگل کیے جانے والے افراد وہاں پہنچ جاتے ہیں بشمول یورپی ملکوں میں تو وہاں موجود ایجنٹس انھیں ان کی مرضی کی منزلوں پر بھیج دیتے ہیں۔ یہ ایک بہت اذیت ناک سفر ہوتا ہے جس دوران اکثر لوگ گرفتار یا پھر مارے جاتے ہیں۔‘‘
انھوں نے بتایا کہ اس کے علاوہ بلوچستان کی سرحد پر ایران میں مند بیلو کا علاقہ انسانی اسمگلروں کے زیر استعمال ہے۔’’ یہاں سے یہ بڑے بحری جہازوں یا کشتیوں میں مسقط جاتے ہیں اور پھر وہاں سے یہ مشرق وسطیٰ کی ریاستوں میں نکل جاتے ہیں۔‘‘
ظفر اعوان کا کہنا ہے کہ ایران سے سالانہ تقریباً 15 ہزار جب کہ عمان سے لگ بھگ سات ہزار پاکستانیوں کو گرفتاری کے بعد ملک بدر کرکے پاکستانی حکام کے حوالے کیا جاتا ہے۔
تاہم انسانی اسمگلنگ کا شکار ہونے والے افراد کی سالانہ مجموعی تعداد بتانے سے انھوں نے معذوری ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ اس بارے میں سرکاری طور پر کوئی اعدادوشمار جمع کرنا تقریباً ناممکن ہے۔
ایف آئی اے کے میگریشن ڈائریکٹر ظفر اعوان کہتے ہیں کہ ان کے ادارے نے ملک میں انسداد انسانی اسمگلنگ کے سولہ سیل قائم کر رکھے ہیں تاہم ان میں سے چند ایک مالی وسائل کی عدم دستیابی کے باعث ابھی تک فعال نہیں ہیں۔
اس کے علاوہ ایک انٹیلی جنس یونٹ کی تکمیل بھی آخری مراحل میں ہے اور ان تمام اقدامات کے بدولت انسانی اسمگلنگ کے واقعات میں نمایاں کمی آئی ہے جس کا ثبوت امریکی وزارت خارجہ کی گزشتہ سال کی رپورٹ میں پاکستان کی درجہ بندی میں بہتری ہے اور ایف آئی اے کی کوششوں کی بدولت توقع ہے کہ انسانی اسمگلنگ سے متعلق امریکی وزارت خارجہ کی نئی سالانہ رپورٹ میں بھی پاکستان کی پوزیشن مزید بہتر ہو گی۔
انتہائی محتاط اندازوں کے مطابق پاکستان میں سرگرم عمل انسانی اسمگلر اس غیرقانونی کاروبار سے تقریباً 11 کروڑ ڈالر سالانہ کماتے ہیں۔ حکام کا کہنا ہے کہ اس وقت پاکستان میں غیرقانونی طور پر مقیم غیر ملکیوں کی تعداد 50 لاکھ سے بھی زیادہ ہے۔