پاکستان میں خواتین اور بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم مددگار ہیلپ لائن کے مطابق ملک میں ہیومن ٹریفکنگ یعنی بردہ فروشی اور انسانی اسمگلنگ کے واقعات میں بہت تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے اور صرف رواں سال کے ابتدائی تین ماہ میں بردہ فروشی اور انسانی اسمگلنگ کے 190 واقعات سامنے آچکے ہیں جب کہ گذشتہ سال یہ تعداد مجموعی طور پر 288 تھی ۔
منگل کو کراچی میں پریس کانفرنس سے خطاب میں تنظیم کے بانی اور معروف وکیل ضیاء اعوان نے ان اعداد و شمار پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اگرچہ ملک میں بردہ فروشی کو روکنے کے لیے قانون موجود ہے لیکن اس پر مناسب عمل درآمد کی ضرورت ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں بڑی تعداد میں قیدی سزا کاٹنے کے باوجود بھی جیلوں میں قید ہیں۔ صرف کراچی کی مختلف جیلوں میں 43 کیسز کی نشاندہی ہوئی ہے۔ ان میں غیر ملکی بھی شامل ہیں جو سزا مکمل ہونے کے باوجود مختلف وجوہات کی وجہ سے اپنے وطن واپس نہیں جاسکے۔
ضیاء اعوان نے بتایا کہ بردہ فروشی اور انسانی اسمگلنگ میں اضافے کی ایک وجہ پاکستان کا جغرافیہ اور کئی ممالک سے منسلک اس کی طویل سرحدیں بھی ہیں ۔ ” پاکستان کا شمار ایسے ممالک میں ہوتا ہے جہاں سے لوگ باہر اسمگل ہوکے جاتے ہیں ، دوسرے ممالک کے لوگ اسمگل ہو کر پاکستان آتے ہیں یا خطے کے دوسرے ممالک کے لوگ پاکستان آکر دوسرے ملکوں کے لیے اسمگل ہوجاتے ہیں ۔ “ تاہم ان کاکہنا تھا کہ ملک میں اندرونی بردہ فروشی بیرونی بردہ فروشی سے زیادہ ہے اور مزید کہ اندورنی بردہ فروشی کے لیے قانون بھی موجود نہیں ۔
مددگار ہیلپ لائن کے مطابق رواں سال اب تک سامنے آنے والے واقعات میں مردوں کی تعداد 112 ، خواتین کی 33 اور بچوں کی 45 ہے۔جب کہ گذشتہ بردہ فروشی اور اسمگلنگ کے حوالے سے مردوں کے 105 ، خواتین کے 90 اور بچوں کے 93 کیسز سامنے آئے ۔
ضیاء اعوان کا کہنا ہے کہ ان کا ادارہ ابتدائی طور پر ایسے 30 افراد کو قانونی مدد فراہم کررہا ہے لیکن ان کے بقول اس مسئلے کے حل کے لیے پاکستان سمیت دوسرے ممالک کے سفارتخانوں ، عدلیہ اور سول سوسائٹی کو بھی اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔
پاکستان میں بردہ فروشی اور انسانی اسمگلنگ کے شکار لوگوں کی اکثریت غریب اور محروم طبقے سے ہے ۔مددگار ہیلپ لائن کا کہنا ہے کہ جب
تک حکومت صحت اور تعلیم سمیت سماجی شعبوں کو زیادہ سے زیادہ فنڈز فراہم نہیں کرے گی اس مسئلے کا حل ممکن نہیں۔