پاکستان کے وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار نے قومی اسمبلی میں انکشاف کیا ہے کہ گزشتہ سال سے اب تک ایک لاکھ قومی شناختی کارڈ ’بلاک‘ کر دیے گئے ہیں۔
اُنھوں نے ایوان کو بتایا کہ بعض قانون سازوں کی سفارش پر کئی غیر ملکیوں کو کوائف کا اندراج کرنے والے قومی ادارے ’نیشنل ڈیٹا بیس رجسٹریشن اتھارٹی‘ میں نوکریاں ملیں، تاہم اُنھوں نے اُن قانون سازوں کے نام نہیں بتائے۔
’’آپ نے کبھی دیکھا ہے کہ نادرا میں غیر ملکیوں کے شناختی کارڈ درج ہوں، غیر ملکی نادرا میں ملازم ہوں۔ مجھ سے نام نا پوچھیں۔ کیوں کہ اُن کے جنہوں نے سفارش کی وہ بھی اراکین پارلیمان ہیں، میں نہیں کہتا کہ اُن کا قصور تھا یا اُنھیں معلوم تھا۔ ہم اس پر کارروائی کر رہے ہیں اُن سے جو سینیٹر تھے اُن کے نام چیئرمین سینیٹ کے پاس لے کر جاؤں گا، جو قومی اسمبلی کے ممبران ہیں اُن کا نام میں آپ (اسیپکر) کے پاس لے کر آؤں گا۔‘‘
وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ جو لوگ بھی جعلی شناختی کارڈ بنوانے میں ملوث تھے اُن کا سراغ لگایا جا رہا ہے۔
’’ ہم نے پچھلے ایک سال میں ایک لاکھ شناختی کارڈز منسوخ کیے ہیں۔ 2012ء میں بیس یا پچیس اور 2013ء میں چار سو شناختی کارڈ بلاک ہوئے اور ہم ایک لاکھ بلاک کر چکے ہیں۔ میں آپ کو اور اس ایوان کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ ہم ایک ایک جعلی شناختی کارڈ کا سراغ لگائیں گے اور جس نے بھی شناختی کارڈ بنوایا ہے اس کے خلاف کارروائی ہو گی اور جس نے بنا کر دیا ہے وہ نادرا میں نہیں رہے گا وہ جیل میں ہو گا۔‘‘
وزیرداخلہ کا کہنا تھا کہ پاکستان میں کسی غیر ملکی کے کوائف کا اندارج ایک سنگین معاملہ ہے اور اس بارے میں اب خصوصی توجہ دی جا رہی ہے۔
’’میں یہ بھی واضح کر دوں یہ اتنا سنگین مسئلہ ہے کہ اس کا ہمیں اندازہ نہیں ہے اس میں ملک دشمن بھی شناختی کارڈ بنوا سکتے ہیں۔ میں چار پانچ ممالک کے شہری جن کے یہاں شناختی کارڈز بنے ہیں ان کا میں کھلے عام اظہار نہیں کر سکتا ہوں۔ ان میں ایسے ممالک بھی ہیں جن کے ساتھ ہماری دوستی نہیں ہے ۔۔۔۔۔ شناختی کارڈ صرف پاکستانیوں کو ملنا چاہیئے، پاکستانیوں کے علاوہ کسی اور کو نہیں ملے گا۔ جو بنوائے گا اس کو بھی جیل میں ڈالیں گے اور جو بنائے گا اسے بھی جیل میں ڈالیں گے۔‘‘
وزیر داخلہ نے ایوان کو بتایا کہ نادرا کے وہ ملازمین جو کہ جعلی شناختی کارڈ بنوانے میں ملوث تھے اُن کے خلاف بھی کارروائی کا سلسلہ جاری ہے۔
’’ہم دو سو سے زائد نادرا ملازمین کو نوکری سے نکال چکے ہیں اور اس بنا پر ان میں درجنوں جیل جا چکے ہیں ہم نے اسسٹنٹ ڈائریکٹر سطح کے لوگوں کو پکڑا ہے اور جیل بھیجا ہے ان میں پاسپورٹ کے (محکمے) کے (لوگ) بھی ہیں۔‘‘
پاکستان میں دہشت گردی کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے گزشتہ ڈیڑھ سے دو سالوں میں کئی اقدامات کیے گئے ہیں جن کے تحت پہلی مرتبہ ملک میں موبائل فون استعمال کرنے والے کروڑوں صارفین کی تصدیق ’بائیو میٹرک‘ یعنی انگوٹھے کے نشان سے کی گئی تھی۔
جب کہ دو کروڑ سے زائد موبائل فون سمز تصدیق نا ہونے کی وجہ سے بلاک کر دی گئی تھیں۔