بچوں کی ذہنی صحت پر لڑائی کے ممکنہ اثرات پر تشویش

پاکستان میں کام کرنے والی ملکی و بین الاقوامی تنظیموں نے قبائلی علاقوں میں سکیورٹی فورسز اور شدت پسندوں کے مابین ہونے والی جھڑپوں کا بچوں کی ذہنی صحت پر ہونے والے منفی اثرات پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔

بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی بین الاقوامی امدادی تنظیم سیوو دی چلڈرن کا کہنا ہے کہ خیبر ایجنسی سے نقل مکانی کرنے والے ساڑھے چار لاکھ سے زائد افراد پشاور اور اس سے ملحقہ علاقوں میں مقیم ہیں۔ جبکہ نقل مکانی کا سلسلہ ابھی بدستور جاری ہے۔ امدادی تنظیم کے حکام کا کہنا ہے کہ جنوری سے اب تک خیبر ایجنسی سے 50 ہزار سے زائد خاندان نقل مکانی کر چکے ہیں اور جھڑپوں کے باعث اندورنی طور پر نقل مکانی کرنے والوں میں 50 فیصد بچے بھی شامل ہیں جن میں 40 فیصد بچوں کی عمر پانچ سال سے بھی کم ہے ۔

بین الاقوامی امدادی تنظیم سیوو دی چلڈرن کے ترجمان فارس قاسم نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ لڑائی کا براہ راست سامنا کرنے اور اپنا گھر بار چھوڑ کر نئے مقامات پر منتقلی کے بعد مشکل حالات میں زندگی گزارنے کی وجہ سے بچوں کے رویوں میں نمایاں تبدیلیاں آئی ہیں۔

’’نفسیاتی مسائل 15 سے 20 فیصد بچوں میں دیکھنے میں آئے ہیں۔ کئی ایسے بچے ہیں جن کی خوراک کم ہو گئی ہے کچھ کھاتے نہیں ہیں۔ کئی ایسے ہیں جو ڈرے رہتے ہیں سہمے ہوتے ہیں اور باہر کھیلنے سے گریز کرتے ہیں۔‘‘

فارس قاسم نے بتایا کہ پشاور کے نزدیک جلوزئی کیمپ میں مقیم خاندان میں شامل بچوں کی ابتدائی تعلیم کے لیے اسکول موجود ہے لیکن کیمپ سے باہر رہنے والوں کو صحت و تعلیم کی سہولتیں میسر نہیں ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ تقریباً ایک لاکھ سے زائد بچے اسکول نہیں جا رہے ہیں یہ بچے اپنا زیادہ تر وقت انجان گلی محلوں میں گھوم پھر کر گزارتے ہیں

سیوو دی چلڈرن نے مختلف علاقوں میں ان بچوں کے لیے 10 عارضی اسکول قائم کئے ہیں۔ جبکہ پشاور میں موجود سرکاری اسکولوں میں بچوں کے اندارج کے لیے بھی کوششیں کی جا رہی ہے۔

بین الاقوامی امدادی تنظیم کے ترجمان کا کہنا ہے کہ واپسی کے حوالے سے واضح حکمت عملی نہ ہونے سے منصوبہ بندی میں دشواری کا سامنا ہے۔

’’یہ کرائسس ایسا ہے کہ ہمیں نہیں پتہ کہ یہ کب ختم ہو گا۔ ابھی تک تو یہ کہہ رہے ہیں کہ شاید چھ ماہ چلے یا سال کے آخر تک چلے تو پلاننگ میں ابھی دشواری ہو رہی ہے کوشش یہ ہے کہ جتنی جلدی ہو سکے ریلیف کا کام شروع کیا جا سکے۔‘‘

پاکستان میں کام کرنے والی ملکی و بین الاقوامی امدادی تنظیموں کا کہنا ہے کہ شورش زدہ علاقوں سے نقل مکانی کرنے والے خاندانوں کی اپنے گھروں کی جانب واپسی عمل 2013 سے پہلے شروع ہوتا دکھائی نہیں دے رہا ہے۔ صوبائی حکومت بھی نقل مکانی کرنے والے خاندانوں کو ہر ممکن سہولتیں فراہم کرنے کی کوششیں کر رہی ہے۔

پشاور اور دیگر قریبی اضلاع میں شدت پسندوں کے حملوں میں تیزی کے بعد حکام نے افغان سرحد سے ملحقہ اس قبائلی علاقے میں رواں سال کے اوائل سے بھرپور فوجی کارروائیاں شروع کر رکھی ہیں۔