پاکستان کے قبائلی علاقے شمالی وزیرستان سے تقریباً نو ماہ قبل فوجی آپریشن کے باعث نقل مکانی کرنے والوں کی مرحلہ وار اپنے علاقوں کو واپسی کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔
پہلے مرحلے میں منگل کو تقریباً ایک سو خاندان بنوں سے کجھوری چیک پوسٹ کے راستے شمالی وزیرستان میں داخل ہوئے۔
ان افراد میں خواتین اور بچوں کی بھی ایک بڑی تعداد موجود تھی جو کہ میرعلی، شاہ میری، اسپن وام اور شیوا کے علاقوں میں پہنچے۔
شمالی وزیرستان سے نقل مکانی کرنے والوں کی واپسی چار مراحل میں مکمل ہو گی جب کہ پہلا مرحلہ 13 اپریل کو پایہ تکمیل کو پہنچے گا۔
واپسی کا یہ عمل قبائلیوں کے ساتھ ایک معاہدے کے تحت شروع کیا گیا جس میں مختلف قبائل اپنے اپنے علاقوں میں علاقائی ذمہ داری کے قانون کے تحت اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ وہ اپنے علاقے میں کسی ملکی و غیر ملکی شدت پسند کو پناہ نہیں دیں گے اور پاکستان مخالف کسی بھی سرگرمی کو روکیں گے۔
واپسی کے عمل کو قبائلیوں کی اکثریت خوش آئند قرار دے رہی ہے لیکن بعض عمائدین اب بھی اس پر تحفظات کا اظہار کر رہے ہیں۔
شمالی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے ایک قبائلی رہنما ملک غلام خان نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا آپریشن کے باعث شمالی وزیرستان میں لوگوں کے کاروبار بہت نقصان ہوا ہے جس کی بحالی کے لیے ٹھوس اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔
حکام یہ کہہ چکے ہیں کہ شمالی وزیرستان سے شدت پسندوں کو سے پاک کروائے جانے والے علاقوں میں لوگوں کی بحالی کے لیے اقدامات بھی مرحلہ وار شروع کیے جا چکے ہیں۔
گزشتہ سال جون میں پاکستانی فوج نے افغان سرحد سے ملحقہ عسکریت پسندوں کے مضبوط گڑھ شمالی وزیرستان میں "ضرب عضب" کے نام سے بھرپور کارروائی شروع کی تھی جس میں اب تک 1200 سے زائد ملکی و غیر ملکی شدت پسندوں کو ہلاک کرنے کے علاوہ ان کے ٹھکانوں، کمانڈ اینڈ کنٹرول سنٹر اور اسلحے کے ذخائر کو تباہ کردیا گیا ہے۔
اس آپریشن کی وجہ سے تقریباً چھ لاکھ افراد نقل مکانی کر کے ملحقہ صوبہ خیبر پختونخواہ میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے تھے۔
اسی ماہ کے وسط میں ایک اور قبائلی علاقے جنوبی وزیرستان سے نقل مکانی کر کے آنے والوں کی واپسی کا سلسلہ بھی شروع کیا گیا تھا۔