وزارت خزانہ کے عہدیداروں کے مطابق اس کمی کی وجہ سے رواں مالی سال کے ترقیاتی منصوبے کے لیے مختص اخراجات میں کمی کی جاسکتی ہے۔
اسلام آباد —
پاکستان کی اقتصادی صورتحال کا جائزلینے کے بعد بین الاقوامی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ نواز شریف انتظامیہ نے معیشت کو مستحکم بنانے میں پیش رفت کی ہے تاہم اب بھی مزید اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔
آئی ایم ایف مشن کے سربراہ جیفری فرینکس نے ہفتہ کو اسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی کارکردگی کو دیکھتے ہوئے وہ ایک رپورٹ اپنے ایگزیکیٹو بورڈ کو پیش کریں گے جس کی منظوری پر اسلام آباد کو 55 کروڑ ڈالر اضافی فراہم کیے جائیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان نے اس کے لیے طے کردہ اہداف میں سے بیشتر مکمل طور پر پورے کیے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ مہنگائی میں کمی اور زرمبادلہ کے ذخائر میں بہتری کے اعتبار سے حکومت کے کارکردگی بہتر تاہم محصولات کے لیے مزید اقدامات نا گزیر ہیں۔
’’یہ بات واضح ہے کہ ٹیکس میں چوری کے ساتھ ساتھ ایف بی آر ٹیکس کے نظام کو بھی بہتر بنانے کے لیے کوششوں کو تیز کرے خصوصاً ٹیکس وصولی سے متعلق ان کے اقدامات نا کافی ہیں۔‘‘
محصولات جمع کرنے والے وفاقی ادارے (ایف بی آر) کی جانب سے رواں مالی سال کے پہلے دس ماہ میں مجموعی طور پر دو کھرب 27 ارب روپے کے ٹیکس جمع کیے گئے جو کہ بین الاقوامی مالیاتی ادارے کے ہدف سے 200 ارب روپے کم ہیں۔
وزارت خزانہ کے عہدیداروں کے مطابق اس کمی کی وجہ سے رواں مالی سال کے ترقیاتی منصوبے کے لیے مختص اخراجات میں کمی کی جاسکتی ہے۔
رواں مالی سال میں یہ دوسری مرتبہ ہے کہ نواز انتظامیہ کم محصولات کے باعث اپنے ترقیاتی بجٹ کو کم کرنے جا رہی ہے۔
وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کا محصولات میں کمی کی وجوہات بتاتے ہوئے کہنا تھا۔
"ایک تو آپ کا روپیہ مستحکم ہوا ہے۔ اس سے کسٹم ڈیوٹی انہیں کم مل رہی ہے۔ پھر درآمدات بھی ڈیڑھ فیصد کم ہوئی ہیں۔ تو اس کمی سے بجٹ خسارہ ہم بڑے دانشمندانہ انداز میں 6 فیصد سے بھی کم لائیں گے۔‘‘
اقتصادی ماہر اور وزارت خزانہ کے سابق مشیر ڈاکٹر اشفاق حسن نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ تقریباً 845 افراد اس وقت ملک کے مجموعی انکم ٹیکس کا 25 فیصد ادا کرتے ہیں۔ بجٹ خسارے کا ہدف پورا کرنے کے بارے میں ان کا کہنا تھا۔
’’یہاں تک کہ صوبے بھی پیسے خرچ نہیں کررہے اور 200 ارب روپے ان کے پاس ہیں اور یہ بجٹ خسارے کا ہدف پورا کرنے کے لیے۔ آئی ایم ایف یہ سب کچھ دیکھ رہا ہے۔‘‘
آئی ایم ایف کے عہدیدار نے ایک بار پھر اس بات پر زور دیا کہ پاکستان توانائی کے شعبے میں مراعات کے خاتمے کے علاوہ ٹیکس نیٹ کو بڑھانے کے لیے موثر اقدامات کرے۔
اقتصادی و توانائی کے شعبوں میں بڑے پیمانے پر اصلاحات کے وعدوں پر پاکستان نے آئی ایم ایف سے 6.7 ارب ڈالر کا قرضہ حاصل کیا اور ایک سرکاری بیان کے مطابق رواں ماہ کوالیشن سپورٹ فنڈ کی مد میں امریکہ سے 38 کروڑ ڈالرز موصول ہو جائیں گے۔
علاوہ ازیں یورو بانڈز سے پاکستان کو دو ارب ڈالرز حاصل ہوں گے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ان رقوم سے پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر میں بہتری آرہی ہے۔
آئی ایم ایف مشن کے سربراہ جیفری فرینکس نے ہفتہ کو اسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی کارکردگی کو دیکھتے ہوئے وہ ایک رپورٹ اپنے ایگزیکیٹو بورڈ کو پیش کریں گے جس کی منظوری پر اسلام آباد کو 55 کروڑ ڈالر اضافی فراہم کیے جائیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان نے اس کے لیے طے کردہ اہداف میں سے بیشتر مکمل طور پر پورے کیے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ مہنگائی میں کمی اور زرمبادلہ کے ذخائر میں بہتری کے اعتبار سے حکومت کے کارکردگی بہتر تاہم محصولات کے لیے مزید اقدامات نا گزیر ہیں۔
’’یہ بات واضح ہے کہ ٹیکس میں چوری کے ساتھ ساتھ ایف بی آر ٹیکس کے نظام کو بھی بہتر بنانے کے لیے کوششوں کو تیز کرے خصوصاً ٹیکس وصولی سے متعلق ان کے اقدامات نا کافی ہیں۔‘‘
محصولات جمع کرنے والے وفاقی ادارے (ایف بی آر) کی جانب سے رواں مالی سال کے پہلے دس ماہ میں مجموعی طور پر دو کھرب 27 ارب روپے کے ٹیکس جمع کیے گئے جو کہ بین الاقوامی مالیاتی ادارے کے ہدف سے 200 ارب روپے کم ہیں۔
وزارت خزانہ کے عہدیداروں کے مطابق اس کمی کی وجہ سے رواں مالی سال کے ترقیاتی منصوبے کے لیے مختص اخراجات میں کمی کی جاسکتی ہے۔
رواں مالی سال میں یہ دوسری مرتبہ ہے کہ نواز انتظامیہ کم محصولات کے باعث اپنے ترقیاتی بجٹ کو کم کرنے جا رہی ہے۔
وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کا محصولات میں کمی کی وجوہات بتاتے ہوئے کہنا تھا۔
"ایک تو آپ کا روپیہ مستحکم ہوا ہے۔ اس سے کسٹم ڈیوٹی انہیں کم مل رہی ہے۔ پھر درآمدات بھی ڈیڑھ فیصد کم ہوئی ہیں۔ تو اس کمی سے بجٹ خسارہ ہم بڑے دانشمندانہ انداز میں 6 فیصد سے بھی کم لائیں گے۔‘‘
اقتصادی ماہر اور وزارت خزانہ کے سابق مشیر ڈاکٹر اشفاق حسن نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ تقریباً 845 افراد اس وقت ملک کے مجموعی انکم ٹیکس کا 25 فیصد ادا کرتے ہیں۔ بجٹ خسارے کا ہدف پورا کرنے کے بارے میں ان کا کہنا تھا۔
’’یہاں تک کہ صوبے بھی پیسے خرچ نہیں کررہے اور 200 ارب روپے ان کے پاس ہیں اور یہ بجٹ خسارے کا ہدف پورا کرنے کے لیے۔ آئی ایم ایف یہ سب کچھ دیکھ رہا ہے۔‘‘
آئی ایم ایف کے عہدیدار نے ایک بار پھر اس بات پر زور دیا کہ پاکستان توانائی کے شعبے میں مراعات کے خاتمے کے علاوہ ٹیکس نیٹ کو بڑھانے کے لیے موثر اقدامات کرے۔
اقتصادی و توانائی کے شعبوں میں بڑے پیمانے پر اصلاحات کے وعدوں پر پاکستان نے آئی ایم ایف سے 6.7 ارب ڈالر کا قرضہ حاصل کیا اور ایک سرکاری بیان کے مطابق رواں ماہ کوالیشن سپورٹ فنڈ کی مد میں امریکہ سے 38 کروڑ ڈالرز موصول ہو جائیں گے۔
علاوہ ازیں یورو بانڈز سے پاکستان کو دو ارب ڈالرز حاصل ہوں گے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ان رقوم سے پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر میں بہتری آرہی ہے۔