بین الاقوامی مالیاتی ادارے پاکستان سے اقتصادی اصلاحات کے ذریعے حکومتی آمدن کو بڑھانے، اخراجات میں کمی اور توانائی کی شعبے میں ’’غیر منصفانہ‘‘ مراعات کے خاتمے کا مطالبہ کرتے آئے ہیں۔
اسلام آباد —
پاکستان اور بین الاقوامی مالیاتی ادارے انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ یا آئی ایم ایف کے درمیان ’’پوسٹ پروگرام مانیٹرنگ‘‘ کے تحت مذاکرات بدھ کو اسلام آباد میں شروع ہوئے۔
وزارت خزانہ کے حکام کے مطابق وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار اور منصوبہ بندی و ترقی کے وزیر احسن اقبال کی قیادت میں پاکستانی وفد نے بات چیت میں آئندہ مالی سال کے بجٹ میں ٹیکس محاصل میں اضافے مالیاتی خسارے پر قابوپانے اور توانائی کے شعبے میں 500 ارب روپے کے گردشی قرضوں کے خاتمے سے متعلق اقدامات کی تفصیلات پیش کیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان عہدیداروں کا کہنا تھا کہ موجودہ حکومت کے اقتصادی بحالی کے منصوبے کے بارے میں بین الاقوامی مالیاتی ادارے کے وفد کی رائے ’’مثبت‘‘ تھی جب کہ اور اس متعلق حکومت کوصوبوں سے مشاورت کی تجویز بھی دی گئی۔
پاکستانی حکام کے مطابق مذاکرات میں کامیابی کی صورت میں آئی ایم ایف سے تین سے 5 ارب ڈالر کا قرضے حاصل ہو سکتا ہے۔
بین الاقوامی مالیاتی ادارے پاکستان سے اقتصادی اصلاحات کے ذریعے حکومتی آمدن کو بڑھانے، اخراجات میں کمی اور توانائی کی شعبے میں ’’غیر منصفانہ‘‘ مراعات کے خاتمے کا مطالبہ کرتے آئے ہیں۔
ٹیکس وصول کرنے والے وفاقی ادارے فیڈرل بیورو آف ریوینیو کے سابق چیرمین ممتاز حیدر رضوی آئی ایم ایف سمیت دیگر بین الاقوامی اداروں سے مذاکرات کا حصہ رہے ہیں۔
وہ کہتے ہیں ’’آئی ایم ایف کو ہمارے یہاں کچھ غلط انداز میں لیا جاتا ہے وہ جب بھی آتے ہیں تو کہتے ہیں آپ اپنے گھر کو درست کریں تو ہم بھی آپ کی مدد کریں گے۔ یہ کہنا کہ آپ زیادہ ٹیکس اکٹھا کریں اور ٹیکس وصولی کے دائرے کو وسیع کریں تو یہ کوئی غلط بات نہیں۔‘‘
حکومت میں شامل عہدیدار یہ کہہ چکے ہیں کہ زرمبادلہ کے ذخائر میں غیر معمولی کمی اور قرضوں کی ادائیگی کے پیش نظر مالیاتی اداروں سے قرضہ کا حصول نا گزیر ہو چکا ہے۔
حکومت کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان پر مجموعی طور پر تقریباً 14 سو ارب روپے کے قرضے ہیں جب کہ اس وقت زرمبادلہ کے ذخائر 6 ارب ڈالر ہیں۔
ملک میں ٹیکس وصولیوں کا دائرہ وسیع نا ہونے کی وجوہات بتاتے ہوئے ممتاز حسین رضوی کا کہنا تھا
’’کیا کرنا چاہیے یہ سب کو معلوم ہے ۔ ۔ ۔ ہم بد قسمتی سے اہم اقدامات نہیں لیتے کیونکہ ہم ان سے سایسی نقصانات برداشت کرنے کو تیار نہیں ہوتے۔‘‘
پاکستان دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے جہاں ٹیکس دھندگان کی تعداد بہت کم ہے۔ ملک کی مجموعی پیداوار کے اعتبار سے پاکستان مین ٹیکس کی شرح صرف 9 فیصد ہے۔
حکام کے مطابق آئی ایم ایف کا وفد لاہور اور کراچی کا بھی دورہ کرے گا جس کے بعد وزارت خزانہ اور آئی ایم ایف کے درمیان اسلام آباد میں پالیسی لیول کے مذاکرات ہونگے۔
وزارت خزانہ کے حکام کے مطابق وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار اور منصوبہ بندی و ترقی کے وزیر احسن اقبال کی قیادت میں پاکستانی وفد نے بات چیت میں آئندہ مالی سال کے بجٹ میں ٹیکس محاصل میں اضافے مالیاتی خسارے پر قابوپانے اور توانائی کے شعبے میں 500 ارب روپے کے گردشی قرضوں کے خاتمے سے متعلق اقدامات کی تفصیلات پیش کیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان عہدیداروں کا کہنا تھا کہ موجودہ حکومت کے اقتصادی بحالی کے منصوبے کے بارے میں بین الاقوامی مالیاتی ادارے کے وفد کی رائے ’’مثبت‘‘ تھی جب کہ اور اس متعلق حکومت کوصوبوں سے مشاورت کی تجویز بھی دی گئی۔
پاکستانی حکام کے مطابق مذاکرات میں کامیابی کی صورت میں آئی ایم ایف سے تین سے 5 ارب ڈالر کا قرضے حاصل ہو سکتا ہے۔
بین الاقوامی مالیاتی ادارے پاکستان سے اقتصادی اصلاحات کے ذریعے حکومتی آمدن کو بڑھانے، اخراجات میں کمی اور توانائی کی شعبے میں ’’غیر منصفانہ‘‘ مراعات کے خاتمے کا مطالبہ کرتے آئے ہیں۔
ٹیکس وصول کرنے والے وفاقی ادارے فیڈرل بیورو آف ریوینیو کے سابق چیرمین ممتاز حیدر رضوی آئی ایم ایف سمیت دیگر بین الاقوامی اداروں سے مذاکرات کا حصہ رہے ہیں۔
وہ کہتے ہیں ’’آئی ایم ایف کو ہمارے یہاں کچھ غلط انداز میں لیا جاتا ہے وہ جب بھی آتے ہیں تو کہتے ہیں آپ اپنے گھر کو درست کریں تو ہم بھی آپ کی مدد کریں گے۔ یہ کہنا کہ آپ زیادہ ٹیکس اکٹھا کریں اور ٹیکس وصولی کے دائرے کو وسیع کریں تو یہ کوئی غلط بات نہیں۔‘‘
حکومت میں شامل عہدیدار یہ کہہ چکے ہیں کہ زرمبادلہ کے ذخائر میں غیر معمولی کمی اور قرضوں کی ادائیگی کے پیش نظر مالیاتی اداروں سے قرضہ کا حصول نا گزیر ہو چکا ہے۔
حکومت کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان پر مجموعی طور پر تقریباً 14 سو ارب روپے کے قرضے ہیں جب کہ اس وقت زرمبادلہ کے ذخائر 6 ارب ڈالر ہیں۔
ملک میں ٹیکس وصولیوں کا دائرہ وسیع نا ہونے کی وجوہات بتاتے ہوئے ممتاز حسین رضوی کا کہنا تھا
’’کیا کرنا چاہیے یہ سب کو معلوم ہے ۔ ۔ ۔ ہم بد قسمتی سے اہم اقدامات نہیں لیتے کیونکہ ہم ان سے سایسی نقصانات برداشت کرنے کو تیار نہیں ہوتے۔‘‘
پاکستان دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے جہاں ٹیکس دھندگان کی تعداد بہت کم ہے۔ ملک کی مجموعی پیداوار کے اعتبار سے پاکستان مین ٹیکس کی شرح صرف 9 فیصد ہے۔
حکام کے مطابق آئی ایم ایف کا وفد لاہور اور کراچی کا بھی دورہ کرے گا جس کے بعد وزارت خزانہ اور آئی ایم ایف کے درمیان اسلام آباد میں پالیسی لیول کے مذاکرات ہونگے۔