پاکستان کی نئی حکومت کے لیے، جو آئندہ چند دنوں میں اقتدار سنبھالنے والی ہے، ایک بڑا مسئلہ زرمبادلہ کی گرتی ہوئی سطح ہے۔ اسے اپنی ادائیگیوں میں توازن قائم رکھنے کے لیے فوری طور پر سرمائے کی ضرورت ہو گی۔ میڈیا میں یہ خبریں گردش کر رہی ہیں کہ پاکستان مالیاتی بحرانی کیفیت سے نکلنے کے لیے ایک بار پھر آئی ایم ایف کے پاس جانے کا سوچ رہا ہے اور وہ اس سے 12 ارب ڈالر کے پیکیج کی درخواست کرے گا۔ جب کہ امریکی انتظامیہ آئی ایم ایف سے یہ کہہ چکی ہے کہ وہ پاکستان کو نیا پیکیج دینے سے گریز کرے کیونکہ انہیں خدشہ ہے کہ یہ رقم چین کا قرضہ ادا کرنے کے لیے استعمال کی جائے گی۔
دوسری جانب پاکستان کی نگران حکومت اس امکان کو مسترد کرتے ہوئے کہہ چکی ہے کہ چین کا قرضہ فوری طور پر واجب الادا نہیں ہے۔ اب امریکہ کے 16 سینیٹرز نے بھی امریکی انتظامیہ پر زور دیا ہے کہ وہ آئی ایم ایف کو ان ملکوں کو بیل آؤٹ پیکیج دینے سے روکے جو چین کے قرضوں میں بندھے ہوئے ہیں اور جن کے پاس قرضوں کی ادائیگی کے لیے زرمبادلہ موجود نہیں ہے۔ ان میں پاکستان بھی شامل ہے۔
شاہد حسن صدیقی نے کہا کہ آئی ایم ایف نگران حکومتوں سے معاہدے نہیں کرتا لیکن پاکستان کے آئی ایم ایف سے غیر رسمی مذاکرات ہو چکے ہیں اور ان کی ممکنہ شرائط پر پہلے سے ہی عمل درآمد شروع ہو چکا ہے ۔
انہوں نے کہا کہ قانونی طور پر کسی ملک کو یہ اختیار نہیں ہے کہ وہ ائی ایم ایف سے یہ کہہ سکے وہ کسی ملک کو قرض نہ دے ۔ کیوں کہ آئی ایم ایف کے اپنے ضابطے اور اپنا بورڈ ہے جو اپنے فیصلے خود کرتا ہے اور پاکستان کا اس کے پاس کوٹہ ہے جس کے تحت وہ پاکستان کو قرض دے سکتا ہے ۔
لیکن انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف کے پا س یہ اختیار ضرور موجود ہے کہ وہ پاکستان پر یہ شرط لگا دے کہ وہ اس سے قرضہ لے کر کسی اور ملک مثلاً چین کا قرضہ ادا نہ کرے۔
شاہد حسن نے کہا کہ ایسا ہوتا بھی نہیں ہے اور پاکستان بھی ایسا نہیں کرے گا۔ تاہم انہوں نے کہا کہ پاکستان کے پاس اسٹیٹ بنک میں دس ارب ڈالر سے زیادہ کے ریزرو ز موجود ہیں جسے وہ چین کے قرض کی ادائیگی کے لیے استعمال کر سکتا ہے۔ اس کے علاوہ اس کے پاس اور متبادل ذرائع بھی ہیں اور اسے سعودی عرب یا اسلامک ڈیولپمنٹ بنک آف جدہ سے بھی کئی ارب ڈالرز کا قرض مل سکتا ہے ۔ اس لئے امریکی سینیٹرز کا یہ خط صرف پاکستان پر دباؤ ڈالنے کی ایک کوشش کے علاوہ کچھ نہیں ہے ۔
تاہم کامران بخاری نے شاہد حسن صدیقی سے اختلاف کیا ۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کے پاس اسٹیٹ بنک میں اگر دس ارب ڈالرز موجود ہیں تو وہ رقم اس لیے نہیں ہے کہ اسے قرض میں ادا کر دیا جائے اور وہ نہیں سمجھتے کہ پاکستان کے پاس اتنا زرمبادلہ موجود ہے کہ وہ اپنے قرض بھی ادا کرے اور اپنے باقی معاملات بھی پورے کر سکے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کے پاس آئی ایم ایف کے علاوہ کوئی اور ایسا متبادل نہیں ہے جو اسے اتنی بڑی رقم قرض میں دے سکے جس سے چین کا قرض ادا کیا جا سکے۔
انہوں نے کہا کہ امریکہ کا آئی ایم ایف پر اتنا اثر و رسوخ ہے کہ وہ کسی بھی ملک کے لیے قرضہ رکوا سکے لیکن وہ ایسا نہ تو کرنا چاہتا ہے اور نہ ہی ایسا کرے گا ۔ کیوں کہ مالی طور پر ایک مستحکم پاکستان اس کے بھی مفاد میں ہے۔ یہ بات اس کے مفاد میں نہیں ہے کہ افغانستان کے بعد پاکستان بھی معاشی عدم استحکام کا شکار ہو جائے۔ انہوں ں نے کہا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ خط اور اس بارے میں امریکی انتظامیہ کے دوسرے بیانات کا اصل مقصد پاکستان پر دباؤ ڈالنا ہے تا کہ وہ افغانستان میں اپنے اہداف حاصل کر سکے۔