انسداد دہشت گردی کی ایک عدالت نے جمعہ کو حکومت مخالف جماعت پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان اور پاکستان عوامی تحریک کے قائد طاہر القادری کو ایک مقدمے میں اشتہاری ملزم قرار دیا ہے۔
ان دونوں کو یکم ستمبر کو اسلام آباد میں ان کی جماعتوں کے کارکنوں اور پولیس کے درمیان جھڑپ کے دوران ایک اعلیٰ پولیس افسر کو زخمی کرنے کے مقدمے میں پیش نہ ہونے پر اشہتاری قرار دیا گیا۔ ایس ایس پی عصمت اللہ جونیجو مشتعل کارکنوں کے حملے میں شدید زخمی ہوگئےتھے۔
عمران خان اور طاہر القادری تین ماہ سے مسلم لیگ ن کی مرکزی حکومت کے خلاف احتجاج کرتے آرہے ہیں۔ رواں ہفتے ہی ایک اور عدالت نے سرکاری ٹی وی کی عمارت پر حملے کے ایک مقدمے میں ان دونوں کے وارنٹ گرفتاری بھی جاری کیے تھے۔
لیکن عمران خان یہ اعلان کر چکے ہیں کہ وہ اس مقدمے میں ضمانت کے لیے عدالت سے رجوع نہیں کریں گے اور ان کے بقول اگر حکومت انھیں گرفتار کر سکتی ہے تو کر لے۔
تحریک انصاف کے رہنما ان مقدمات کو سیاسی مخالفت کا شاخسانہ جب کہ حکومت اسے کلی طور پر ایک قانونی معاملہ قرار دیتی ہے۔
قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ بادی النظر میں حکومت اور احتجاجی جماعتیں سیاست میں ہی مصروف ہیں اور اس سارے عمل میں قانون کی پاسداری کے صرف دعوے ہی دیکھنے میں آئے ہیں۔
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر اور ہائی کورٹ کے سابق جج طارق محمود نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں اس ساری صورتحال کو خاصا افسوسناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ اگر "ملک کو بچانا ہے یہ صرف قانون کے ذریعے ہی بچے گا"۔ بصورت دیگر حالات کسی کے لیے بھی سود مند نہیں ہوں گے۔
"ایک تحقیقات ہوئی بھئی غلط ہوئی ہوگی۔۔۔تو اس کا قانون میں ایک طریقہ ہے آپ (عمران خان اس تحقیقات کے) چلے جاتے، اب عدالت میں چالان آگیا عدالت نے چالان کی بنیاد پر کارروائی کرنی ہے۔۔۔اگر یہ کیس جھوٹا بھی ہے تو وہ (عمران خان) قانونی راستہ اختیار کریں۔۔۔کیونکہ اگر آج انھوں نے قانون کا راستہ اختیار نہ کیا تو پھر انھیں بھی یہی ملے گا اور تب انھیں پتا چلے گا کہ ملک چلانا کتنا مشکل ہے۔"
دوسری طرف بعض سیاسی حلقوں کی طرف سے کشیدگی میں فوری کمی کے امکانات کو معدوم ہی تصور کیا جارہا ہے جبکہ کچھ سیاسی رہنما اب بھی حکومت اور مخالف قوتوں کے درمیان مذاکرات اور صلح صفائی پر زور دیتے آرہے ہیں۔