احسان اللہ احسان کے بقول انٹرویو میں اُن کا موقف تھا کہ عمران خان کی وزیرستان آمد کی مصدقہ تاریخ سے ایک ہفتے قبل طالبان کی شوریٰ اپنے حتمی رد عمل کا اعلان کرے گی۔
پاکستان میں سرگرم طالبان شدت پسندوں نے تیزی سے مقبولیت حاصل کرنے والی سیاسی جماعت ’تحریک انصاف‘ کے چیئرمین عمران خان کو قتل کرنے کی دھمکی دینے کی تردید کی ہے۔
عمران خان نے پاکستانی حدود میں امریکی ڈرون حملوں کے خلاف جاری اپنی احتجاجی مہم کے سلسلے میں قبائلیوں سے اظہار یکجہتی کے لیے ستمبر میں جلوس کی شکل میں وزیرستان جانے کا اعلان کر رکھا ہے، تاہم تاریخ کا تعین ہونا باقی ہے۔
امریکی خبر رساں ایجنسی ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ نے بدھ کو تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے مرکزی ترجمان احسان اللہ احسان کا ایک انٹرویو شائع کیا تھا جس میں انتباہ کیا گیا تھا کہ اگر عمران خان ڈرون حملوں کے خلاف مجوزہ احتجاجی ریلی کے لیے وزیرستان آئے تو اُنھیں قتل کر دیا جائے گا۔
لیکن ٹی ٹی پی کے ترجمان نے ذرائع ابلاغ کو بھیجے گئے وضاحتی بیان میں کہا ہے کہ انٹرویو میں اُنھوں نے ایسی کوئی دھمکی نہیں دی بلکہ خبر رساں ادارے نے یہ اضافہ خود سے کیا ہے۔
’’یہ (بات) اٹل اور واضح ہے کہ ہمیں عمران خان سے نا تو کوئی ہمدردی ہے اور نا ہی ہمیں اُن کی ہمدردی کی ضرورت ہے، کیوں کہ وہ خود لیبرل (آزاد خیال) ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں اور ہم آزاد خیالوں کو بے دین سمجھتے ہیں۔‘‘
احسان اللہ احسان کے بقول انٹرویو میں اُن کا موقف تھا کہ عمران خان کی وزیرستان آمد کی مصدقہ تاریخ سے ایک ہفتے قبل طالبان کی شوریٰ اپنے حتمی رد عمل کا اعلان کرے گی۔
عمران خان کو دھمکی کی خبر پر مبصرین نے بھی تعجب کا اظہار کیا ہے کیوں کہ حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والے یہ سیاست دان حالیہ مہینوں میں بار ہا طالبان جنگجوؤں اور حکومت کے درمیان امن بات چیت میں کردار ادا کرنے کی پیشکش کر چکے ہیں اور اطلاعات کے مطابق وہ عسکریت پسندوں کے نمائندوں سے بھی رابطے میں ہیں۔
عمران خان نے پاکستانی حدود میں امریکی ڈرون حملوں کے خلاف جاری اپنی احتجاجی مہم کے سلسلے میں قبائلیوں سے اظہار یکجہتی کے لیے ستمبر میں جلوس کی شکل میں وزیرستان جانے کا اعلان کر رکھا ہے، تاہم تاریخ کا تعین ہونا باقی ہے۔
امریکی خبر رساں ایجنسی ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ نے بدھ کو تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے مرکزی ترجمان احسان اللہ احسان کا ایک انٹرویو شائع کیا تھا جس میں انتباہ کیا گیا تھا کہ اگر عمران خان ڈرون حملوں کے خلاف مجوزہ احتجاجی ریلی کے لیے وزیرستان آئے تو اُنھیں قتل کر دیا جائے گا۔
لیکن ٹی ٹی پی کے ترجمان نے ذرائع ابلاغ کو بھیجے گئے وضاحتی بیان میں کہا ہے کہ انٹرویو میں اُنھوں نے ایسی کوئی دھمکی نہیں دی بلکہ خبر رساں ادارے نے یہ اضافہ خود سے کیا ہے۔
’’یہ (بات) اٹل اور واضح ہے کہ ہمیں عمران خان سے نا تو کوئی ہمدردی ہے اور نا ہی ہمیں اُن کی ہمدردی کی ضرورت ہے، کیوں کہ وہ خود لیبرل (آزاد خیال) ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں اور ہم آزاد خیالوں کو بے دین سمجھتے ہیں۔‘‘
احسان اللہ احسان کے بقول انٹرویو میں اُن کا موقف تھا کہ عمران خان کی وزیرستان آمد کی مصدقہ تاریخ سے ایک ہفتے قبل طالبان کی شوریٰ اپنے حتمی رد عمل کا اعلان کرے گی۔
عمران خان کو دھمکی کی خبر پر مبصرین نے بھی تعجب کا اظہار کیا ہے کیوں کہ حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والے یہ سیاست دان حالیہ مہینوں میں بار ہا طالبان جنگجوؤں اور حکومت کے درمیان امن بات چیت میں کردار ادا کرنے کی پیشکش کر چکے ہیں اور اطلاعات کے مطابق وہ عسکریت پسندوں کے نمائندوں سے بھی رابطے میں ہیں۔