پاکستان اور بھارت کے درمیان لائن آف کنٹرول اور ورکنگ باؤنڈری پر فائرنگ اور گولہ باری کے تبادلوں سے پیدا ہونے والی صورتحال کے تناظر میں دونوں ملکوں کے اعلیٰ فوجی عہدیداروں کے درمیان رابطہ ہوا ہے۔
سرکاری میڈیا کے مطابق پاکستانی فوج کے ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز (ڈی جی ایم اوز) نے منگل کو اپنے بھارتی ہم منصب سے ہاٹ لائن پر رابطہ کیا اور انھیں لائن آف کنٹرول پر بھارتی فورسز کی 'بلااشتعال' فائرنگ اور گولہ باری پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا۔
دونوں ملکوں کے ڈی جی ایم اوز کی گزشتہ سال دسمبر میں ملاقات ہوئی تھی جس میں 2003ء میں لائن آف کنٹرول پر فائربندی سے متعلق طے پانے والے معاہدے کی پاسداری کا عزم ظاہر کیا گیا تھا۔
لیکن رواں ماہ دونوں ملکوں کے درمیان متنازع علاقے کشمیر کی حد بندی لائن اور سیالکوٹ ورکنگ باؤنڈری پر سرحد کے آر پار سے فائرنگ کے تبادلے کے واقعات پیش آچکے ہیں۔
ان واقعات میں کم ازکم 13 پاکستانی اور آٹھ بھارتی شہری ہلاک ہو چکے ہیں جب کہ دونوں ہمسایہ ایٹمی قوتوں کے درمیان کشیدگی میں بھی اضافہ ہوا۔
دونوں ملک ایک دوسرے پر فائربندی کی خلاف ورزی میں پہل کا الزام عائد کرتے ہیں۔
گزشتہ اتوار کو پاکستان کے وزیراعظم کے مشیر برائے قومی سلامتی و خارجہ امور سرتاج عزیز نے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے نام لکھے گئے خط میں انھیں سرحدی کشیدگی سے متعلق آگاہ کیا تھا۔
پاکستانی عہدیدار نے خط میں لکھا تھا کہ کشمیر کا مسئلہ حل کروانے کے لیے اقوام متحدہ اور بین الاقوامی برادری اپنا کردار ادا کرے۔
ایک روز قبل بھی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے پانچ مستقل رکن ممالک کے اسلام آباد میں موجود سفراء کو دفتر خارجہ میں سرتاج عزیز نے سرحدی کشیدگی کی موجود صورتحال سے آگاہ کیا تھا۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ فوجی کمانڈروں کا ہاٹ لائن پر رابطہ خوش آئند ہے اور توقع ہے کہ اس سے کشیدگی میں کمی لانے میں مدد مل سکتی ہے۔
سینیئر تجزیہ کار پروفیسر حسن عسکری رضوی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ اس رابطے سے ظاہر ہوتا ہے کہ دونوں ملک اب صورتحال کو بہتر کرنا چاہتے ہیں۔
"اب لگتا ہے پاکستان اور ہندوستان صورتحال میں بہتری لانا چاہتے ہیں اسی لیے براہ راست رابطہ کیا ہے اب دیکھنا یہ کہ دونوں اب کب بات پر اتفاق کرتے ہیں کہ ان کے مقامی فوجی کمانڈروں کی فلیگ میٹنگ کب ہوگی۔ سیاسی قیادت کی طرف سے بھی یہ بیانات آنے ضروری ہیں کہ وہ معاملات کو اس طور پر نہیں چلائیں گی بلکہ پرامن طریقے سے تعلقات کو لے کر چلیں گی تو تب جا کر معاملات سنبھل سکتے ہیں۔"
امریکہ کی طرف سے بھی یہ بیان سامنے آ چکا ہے کہ دونوں ملک بات چیت کے ذریعے معاملات کو حل کریں۔
پیر کو اسلام آباد کے دورے پر آئے ہوئے امریکی سینیٹ کے دو رکنی وفد سے ملاقات میں وزیراعظم نواز شریف نے بھی کہا تھا کہ پاکستان اور بھارت مذاکرات کے ذریعے ہی آگے بڑھ سکتے ہیں۔