پاکستان اور بھارت نے جمعرات کو اپنی اپنی جوہری نتصیبات اور ایک دوسرے کے ہاں قید اپنے شہریوں کی فہرستوں کا تبادلہ کیا۔
پاکستانی وزرات خارجہ کی ترجمان تسنیم اسلم نے ہفتہ وار بریفنگ میں بتایا کہ پاکستان نے جمعرات کو مقامی وقت کے مطابق صبح ساڑھے گیارہ بجے اپنی جوہری تنصیبات کی فہرست بھارتی ہائی کمیشن کے نمائندے کے حوالے کی اور اسی وقت بھارتی وزارت خارجہ کے حکام نے بھی دہلی میں پاکستانی ہائی کمیشن کے نمائندے کو ایسی ہی فہرست پیش کی۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ کی صورت میں ایک دوسرے کی جوہری تنصیبات پر حملے کی ممانعت سے متعلق 1988ء میں طے پانے والے معاہدے کے تحت دونوں ملکوں کی حکومتیں ہر سال یکم جنوری کو اپنی اپنی جوہری تنصیبات کی فہرستوں کے تبادلے کی پابند ہیں۔
جوہری تنصیبات پر حملہ نا کرنے کا یہ معاہدہ یکم جنوری 1991ء کو نافذ العمل ہوا اور دونوں ملکوں کے درمیان فہرستوں کا تبادلہ بھی پہلی بار اس ہی روز کیا گیا تھا۔
ترجمان کی طرف سے جوہری تنصیبات کی تعداد یا دوسری معلومات فراہم نہیں کی گئیں۔
ان فہرستوں میں صرف سویلین تنصیبات بشمول جوہری بجلی گھروں اور ان کے جائے وقوع کی نشاندہی کی جاتی ہے جب کہ فوجی نوعیت کی تنصیبات اور دیگر تفصیلات کا تبادلہ نہیں کیا جاتا۔
جمعرات کو ہی دونوں ملکوں نے اپنے ہاں قید ایک دوسرے کے شہریوں کی متعلق فہرستوں کا بھی تبادلہ کیا۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان مئی 2008 میں طے پانے والے ایک معاہدے کے تحت ہر سال یکم جنوری اور یکم جولائی کو ان فہرستوں کا تبادلہ کیا جاتا ہے۔
تسنیم اسلم کا کہنا ہے کہ پاکستان کی طرف سے بھارت کو فراہم کی گئی فہرست کے مطابق 526 بھارتی شہری پاکستان کی جیلوں میں قید ہیں جن میں 470 ماہی گیر اور50 عام شہری ہیں۔
ترجمان کا کہنا تھا کہ بھارت کی طرف فراہم کردہ فہرست کے مطابق بھارت کی جیلوں میں قید پاکستانیوں کی تعداد 488 ہے جس میں 253 ماہی گیر جبکہ 132 عام شہری ہیں۔
لیکن پاکستان کا موقف ہے کہ اس کی معلومات کے مطابق بھارتی جیلوں میں اس کے 510 شہری قید ہیں جن میں 360 عام شہری اور 150 ماہی گیر ہیں۔