پاکستانی دفتر خارجہ کے بیان میں کشمیر میں دونوں ملکوں کو فوجی قوائد و ضوابط کو مزید مضبوط بنانے پر زور دیتے ہوئے کہا گیا کہ ایسے اقدامات کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے جس سے ماحول کو کشیدہ کرنے والی بے بنیاد اور اشتعال انگیز خبروں سے بچا جا سکے۔
اسلام آباد —
پاکستان نے کشمیر میں حد بندی لائن پر فائرنگ کے بھارتی الزام کو مسترد کرتے ہوئے اسے بے بنیاد قرار دیا ہے۔
بھارتی فوج نے دعویٰ کیا تھا کہ کشمیر کو دو حصوں میں منقسم کرنے والی لائن آف کنٹرول کے پونچھ سیکٹر میں منگل کو پاکستانی فوج کی فائرنگ سے اس کے پانچ اہلکار ہلاک ہوئے۔
تاہم پاکستانی دفتر خارجہ کی طرف سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا کہ پاکستانی عکسری حکام نے تصدیق کی ہے کہ ایسا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا۔
بیان کے مطابق پاکستان لائن آف کنٹرول پر فائر بندی کے 2003ء کے معاہدے پر کاربند ہے جو کہ اس کے بقول دونوں ملکوں کے درمیان اعتماد سازی کا ایک اہم جز ہے اور اس پر پوری طرح سے عمل درآمد کیا جانا چاہیئے۔
بیان میں کشمیر میں دونوں ملکوں کو فوجی قوائد و ضوابط کو مزید مضبوط بنانے پر زور دیتے ہوئے کہا گیا کہ ایسے اقدامات کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے جس سے ماحول کو کشیدہ کرنے والی بے بنیاد اور اشتعال انگیز خبروں سے بچا جا سکے۔
مزید برآں بیان میں کہا گیا ہے کہ پاکستان بھارت کے ساتھ تعمیری اور نتیجہ خیز روابط کے لیے پرعزم ہے اور دونوں ملکوں کے درمیان مذاکراتی عمل کی جلد بحالی کا منتظر ہے۔
بیان میں کہا گیا کہ مثبت ماحول کو برقرار رکھنے اور پروپیگنڈے سے گریز کرنے کے لیے دونوں ملکوں کو سنجیدہ کوششوں کو جاری رکھنا ہوگا۔
اس سے قبل پاکستانی فوج کے ایک ذمہ دار افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وائس آف امریکہ بتایا کہ منگل کو لائن آف کنٹرول پر فائرنگ کا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا اور نہ ہی پاکسانی فوج ایسے کسی واقعے میں ملوث ہے۔
گزشتہ ماہ کے اواخر میں پاکستانی فوج نے دعویٰ کیا تھا کہ لائن آف کنٹرول پر راولاکوٹ کے نیزہ پیر سیکٹر میں بھارتی فوج کی بلااشتعال فائرنگ سے اس کا ایک اہلکار ہلاک اور ایک زخمی ہوگیا تھا۔
بھارت نے اس الزام کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ فائرنگ کی شروعات پاکستان کی طرف سے کی گئی تھی۔
دونوں ہمسایہ ایٹمی قوتوں کے درمیان کشمیر ایک متنازع علاقہ ہے۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان 2003ء میں لائن آف کنٹرول پر فائر بندی کا ایک معاہدہ ہوا تھا جس کے بعد کشمیر کے دونوں حصوں میں مقیم لوگوں کے لیے سفری اور تجارتی سہولت کا آغاز بھی ہوا۔
تاہم رواں سال کے اوائل میں یکے بعد دیگرے ایک دوسرے پر فائرنگ کے واقعات میں پاکستان کے چار اور بھارت کے دو فوجی ہلاک ہو گئے تھے جس کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہو گیا تھا۔
بعد ازاں سفارتی اور فوجی سطح پر رابطوں کے ذریعے اس کشیدگی کو کم کرنے میں مدد ملی تھی۔
پاکستان میں 11 مئی کے انتخابات کے بعد بننے والی نئی حکومت کا کہنا ہے کہ وہ بھارت کے ساتھ اچھے ہمسایوں جیسے تعلقات استوار کرنے کی خواہاں ہے۔
وزیراعظم نوازشریف سمیت اعلیٰ حکومتی عہدیدار یہ کہہ چکے ہیں بھارت کے ساتھ
تعلقات بہتر بنانا ان کی ترجیحات میں شامل ہے اور دونوں ملک تعطل کے شکار جامع امن مذاکرات کی بحالی کے لیے کام کررہے ہیں۔
بھارتی فوج نے دعویٰ کیا تھا کہ کشمیر کو دو حصوں میں منقسم کرنے والی لائن آف کنٹرول کے پونچھ سیکٹر میں منگل کو پاکستانی فوج کی فائرنگ سے اس کے پانچ اہلکار ہلاک ہوئے۔
تاہم پاکستانی دفتر خارجہ کی طرف سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا کہ پاکستانی عکسری حکام نے تصدیق کی ہے کہ ایسا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا۔
بیان کے مطابق پاکستان لائن آف کنٹرول پر فائر بندی کے 2003ء کے معاہدے پر کاربند ہے جو کہ اس کے بقول دونوں ملکوں کے درمیان اعتماد سازی کا ایک اہم جز ہے اور اس پر پوری طرح سے عمل درآمد کیا جانا چاہیئے۔
بیان میں کشمیر میں دونوں ملکوں کو فوجی قوائد و ضوابط کو مزید مضبوط بنانے پر زور دیتے ہوئے کہا گیا کہ ایسے اقدامات کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے جس سے ماحول کو کشیدہ کرنے والی بے بنیاد اور اشتعال انگیز خبروں سے بچا جا سکے۔
مزید برآں بیان میں کہا گیا ہے کہ پاکستان بھارت کے ساتھ تعمیری اور نتیجہ خیز روابط کے لیے پرعزم ہے اور دونوں ملکوں کے درمیان مذاکراتی عمل کی جلد بحالی کا منتظر ہے۔
بیان میں کہا گیا کہ مثبت ماحول کو برقرار رکھنے اور پروپیگنڈے سے گریز کرنے کے لیے دونوں ملکوں کو سنجیدہ کوششوں کو جاری رکھنا ہوگا۔
اس سے قبل پاکستانی فوج کے ایک ذمہ دار افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وائس آف امریکہ بتایا کہ منگل کو لائن آف کنٹرول پر فائرنگ کا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا اور نہ ہی پاکسانی فوج ایسے کسی واقعے میں ملوث ہے۔
گزشتہ ماہ کے اواخر میں پاکستانی فوج نے دعویٰ کیا تھا کہ لائن آف کنٹرول پر راولاکوٹ کے نیزہ پیر سیکٹر میں بھارتی فوج کی بلااشتعال فائرنگ سے اس کا ایک اہلکار ہلاک اور ایک زخمی ہوگیا تھا۔
بھارت نے اس الزام کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ فائرنگ کی شروعات پاکستان کی طرف سے کی گئی تھی۔
دونوں ہمسایہ ایٹمی قوتوں کے درمیان کشمیر ایک متنازع علاقہ ہے۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان 2003ء میں لائن آف کنٹرول پر فائر بندی کا ایک معاہدہ ہوا تھا جس کے بعد کشمیر کے دونوں حصوں میں مقیم لوگوں کے لیے سفری اور تجارتی سہولت کا آغاز بھی ہوا۔
تاہم رواں سال کے اوائل میں یکے بعد دیگرے ایک دوسرے پر فائرنگ کے واقعات میں پاکستان کے چار اور بھارت کے دو فوجی ہلاک ہو گئے تھے جس کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہو گیا تھا۔
بعد ازاں سفارتی اور فوجی سطح پر رابطوں کے ذریعے اس کشیدگی کو کم کرنے میں مدد ملی تھی۔
پاکستان میں 11 مئی کے انتخابات کے بعد بننے والی نئی حکومت کا کہنا ہے کہ وہ بھارت کے ساتھ اچھے ہمسایوں جیسے تعلقات استوار کرنے کی خواہاں ہے۔
وزیراعظم نوازشریف سمیت اعلیٰ حکومتی عہدیدار یہ کہہ چکے ہیں بھارت کے ساتھ
تعلقات بہتر بنانا ان کی ترجیحات میں شامل ہے اور دونوں ملک تعطل کے شکار جامع امن مذاکرات کی بحالی کے لیے کام کررہے ہیں۔