پاکستانی دفترخارجہ نے ان واقعات پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان خطے میں پائیدار امن کی خواہش رکھتا ہے۔
اسلام آباد —
پاکستان نے الزام عائد کیا ہے کہ بھارتی سکیورٹی فورسز نے اتوار کو دو مختلف مقامات پر اس کی چیک پوسٹوں پر ’’بلا اشتعال‘‘ فائرنگ کی۔
پاکستانی فوج کے مطابق بھارت کی بارڈر سکیورٹی فورسز نے سیالکوٹ سیکٹر میں ہیڈ مرالہ کے قریب رینجرز کی چیک پوسٹوں کو نشانہ بنایا ۔ پاکستانی سکیورٹی اہلکاروں کی طرف سے اس پر جوابی فائرنگ بھی کی گئی اور فائرنگ کا تبادلہ کافی دیر تک جاری رہا۔
اس واقعے کے چند گھنٹوں بعد ہی پاکستان آرمی کے ایک سینئر اہلکار نے بتایا کہ کشمیر کو منقسم کرنے والی حد بندی لائن (لائن آف کنٹرول) پر نکیال سیکٹر میں بھی بھارتی فورسز نے فائر بندی کی خلاف ورزی کی۔ تاہم حکام کے مطابق دونوں واقعات میں کسی قسم کا جانی نقصان نہیں ہوا۔
بھارت کی طرف سے اس دعوے پر فوری طور پر کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا۔
پاکستانی دفتر خارجہ کے ترجمان اعزاز احمد چودھری نے ان واقعات پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم نواز شریف اگلے ماہ نیو یارک میں اپنے بھارتی ہم منصب سے ہونے والی ملاقات کے دوران اس معاملے کو بھی اٹھائیں گے۔
’’نئی دہلی میں پاکستان ہاؤس کے سامنے مظاہرہ، دوستی بس کو روکنا اور لائن آف کنٹرول پر بلااشتعال فئرنگ یہ تمام واقعات ماحول میں کشیدگی اور تناؤ میں اضافہ کررہے ہیں۔ ہمارے وزیراعظم یہ بات اٹھائیں گے تاکہ علاقے میں قیام امن کے لیے دیرپا اقدامات کیے جاسکیں۔‘‘
جنوبی ایشیائی جوہری طاقتوں، پاکستان اور بھارت، کے تعلقات میں گزشتہ ہفتے ایک بار پھر کشیدگی دیکھی گئی جب بھارت نے لائن آف کنٹرول پر پاکستانی فورسز کی فائرنگ سے اس کے پانچ فوجی اہلکاروں کی ہلاکت کا دعویٰ کیا لیکن پاکستان نے اس الزام کی تردید کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایسا کوئی واقعہ رونما نہیں ہوا۔
رواں سال کے اوائل سے دونوں ہمسایہ ایٹمی قوتیں کشمیرمیں حد بندی لائن پر ایک دوسرے پر فائربندی کی خلاف ورزی کے الزامات لگاتی رہی ہیں تاہم بعد ازاں سفارتی اور دفاعی سطح پر رابطوں کے بعد ماحول میں کسی حد تک کشیدگی کم ہو سکی تھی۔
اعزاز چوہدری کا کہنا ہے کہ موجودہ تشویش ناک اور تناؤ کی صورتحال سے نمٹنے کے لیے ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔
’’دونوں ملکوں کے درمیان چینلز موجود ہیں جن میں ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز اور سیکرٹری خارجہ کے درمیان ہاٹ لائنز شامل ہیں۔ ایک تو انہیں استعمال میں لایا جاسکتا ہے اور دوسرا اگر کوئی رپورٹ آجائے تو اسے بغیر تصدیق کے اشتعال انگیزی کے لیے استعمال نا کیا جائے۔
حکمران پاکستان مسلم لیگ کے سربراہ نواز شریف ہمیشہ بھارت سے بہتر تعلقات پر زور دیتے رہے ہیں اور اس خواہش کا ایک بار پھر اظہار کرتے ہوئے انہوں نے اپنی حلف برادری کی تقریب میں بھارتی وزیراعظم کو شرکت کی دعوت بھی دی تھی۔
پاکستانی فوج کے مطابق بھارت کی بارڈر سکیورٹی فورسز نے سیالکوٹ سیکٹر میں ہیڈ مرالہ کے قریب رینجرز کی چیک پوسٹوں کو نشانہ بنایا ۔ پاکستانی سکیورٹی اہلکاروں کی طرف سے اس پر جوابی فائرنگ بھی کی گئی اور فائرنگ کا تبادلہ کافی دیر تک جاری رہا۔
اس واقعے کے چند گھنٹوں بعد ہی پاکستان آرمی کے ایک سینئر اہلکار نے بتایا کہ کشمیر کو منقسم کرنے والی حد بندی لائن (لائن آف کنٹرول) پر نکیال سیکٹر میں بھی بھارتی فورسز نے فائر بندی کی خلاف ورزی کی۔ تاہم حکام کے مطابق دونوں واقعات میں کسی قسم کا جانی نقصان نہیں ہوا۔
بھارت کی طرف سے اس دعوے پر فوری طور پر کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا۔
پاکستانی دفتر خارجہ کے ترجمان اعزاز احمد چودھری نے ان واقعات پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم نواز شریف اگلے ماہ نیو یارک میں اپنے بھارتی ہم منصب سے ہونے والی ملاقات کے دوران اس معاملے کو بھی اٹھائیں گے۔
’’نئی دہلی میں پاکستان ہاؤس کے سامنے مظاہرہ، دوستی بس کو روکنا اور لائن آف کنٹرول پر بلااشتعال فئرنگ یہ تمام واقعات ماحول میں کشیدگی اور تناؤ میں اضافہ کررہے ہیں۔ ہمارے وزیراعظم یہ بات اٹھائیں گے تاکہ علاقے میں قیام امن کے لیے دیرپا اقدامات کیے جاسکیں۔‘‘
جنوبی ایشیائی جوہری طاقتوں، پاکستان اور بھارت، کے تعلقات میں گزشتہ ہفتے ایک بار پھر کشیدگی دیکھی گئی جب بھارت نے لائن آف کنٹرول پر پاکستانی فورسز کی فائرنگ سے اس کے پانچ فوجی اہلکاروں کی ہلاکت کا دعویٰ کیا لیکن پاکستان نے اس الزام کی تردید کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایسا کوئی واقعہ رونما نہیں ہوا۔
رواں سال کے اوائل سے دونوں ہمسایہ ایٹمی قوتیں کشمیرمیں حد بندی لائن پر ایک دوسرے پر فائربندی کی خلاف ورزی کے الزامات لگاتی رہی ہیں تاہم بعد ازاں سفارتی اور دفاعی سطح پر رابطوں کے بعد ماحول میں کسی حد تک کشیدگی کم ہو سکی تھی۔
اعزاز چوہدری کا کہنا ہے کہ موجودہ تشویش ناک اور تناؤ کی صورتحال سے نمٹنے کے لیے ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔
’’دونوں ملکوں کے درمیان چینلز موجود ہیں جن میں ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز اور سیکرٹری خارجہ کے درمیان ہاٹ لائنز شامل ہیں۔ ایک تو انہیں استعمال میں لایا جاسکتا ہے اور دوسرا اگر کوئی رپورٹ آجائے تو اسے بغیر تصدیق کے اشتعال انگیزی کے لیے استعمال نا کیا جائے۔
حکمران پاکستان مسلم لیگ کے سربراہ نواز شریف ہمیشہ بھارت سے بہتر تعلقات پر زور دیتے رہے ہیں اور اس خواہش کا ایک بار پھر اظہار کرتے ہوئے انہوں نے اپنی حلف برادری کی تقریب میں بھارتی وزیراعظم کو شرکت کی دعوت بھی دی تھی۔