بھارتی ڈپٹی ہائی کشمنر کو پاکستان کی تشویش سے آگاہ کیا گیا اور اس بات پر دوبارہ زور دیا گیا کہ کشیدگی پیدا کرنے والے ایسے واقعات سے بچنے کے لیے روابط کے نظام کو استعمال میں لاتے ہوئے مضبوط بنایا جائے۔
اسلام آباد —
متنازعہ ریاست کشمیر میں حد بندی لائن پر گزشتہ چند روز سے مبینہ طور پر مسلسل فائر بندی کی خلاف ورزی پر پیر کو بھارتی ڈپٹی ہائی کمشنر کو اسلام آباد میں پاکستانی وزارت خارجہ طلب کیا گیا۔
دفتر خارجہ کے حکام کے مطابق سفارتکار کو بھارتی سیکورٹی فورسز کی طرف سے لائن آف کنٹرول پر مبینہ ’’بلااشتعال‘‘ فائرنگ کرنے پر پاکستان کی تشویش سے آگاہ کیا گیا اور اس بات پر دوبارہ زور دیا گیا کہ کشیدگی پیدا کرنے والے ایسے واقعات سے بچنے کے لیے روابط کے نظام کو استعمال میں لاتے ہوئے مضبوط بنایا جائے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ لائن آف کنٹرول پر موجودہ کشیدگی دونوں ہمسایہ ممالک کے تعلقات بہتر بنانے کی کوششوں کے لیے شدید نقصان دہ ثابت ہوسکتی ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اس حالیہ کشیدگی کو بے معنی قرار دیتے ہوئے کہا کہ بھارت کی داخلی سیاسی صورتحال بھی ممکنہ طور پر اس کی ایک بڑی وجہ ہے۔
’’الیکشن کا دور ہے اور کانگرس اور بھارتی جنتا پارٹی ایک دوسرے پر سبقت حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہیں کہ وہ کتنے محب وطن ہیں اور کون جارحانہ رویہ رکھتا ہے۔‘‘
ان کے مطابق بھارتی پارلیمان کے ایوان زیریں یعنی لوک سبھا میں جارجانہ تقاریر اور اس کے بعد نئی دہلی میں پاکستانی ہائی کمیشن کے باہر مظاہرے نے حالات کو مزید الجھایا ہے۔
شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ موجودہ کشیدگی سے خطے اور بالخصوص افغانستان کے سلامتی سے متعلق حالات پر بھی برے اثرات مرتب ہوں گے جہاں سے 2014 میں امریکہ سمیت بین الاقوامی افواج کا انخلاء ہوجائے گا۔
لائن آف کنٹرول پر فائر حد بندی کی مبینہ خلاف ورزی کے تازہ واقعے میں پاکستانی حکام کے بقول بھارتی فوجیوں نے اتوار اور پیر کی درمیانی شب پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے بٹل، چڑی کوٹ اور ستوال سیکٹرز میں’’بلا اشتعال‘‘ فائرنگ کی جس میں ایک شہری ہلاک اور ایک خاتون کے زخمی ہونے کی اطلاعات ملی ہیں۔
رواں ماہ کے اوائل سے ایک بار پھر دونوں ملکوں کے درمیان کشمیر کی لائن آف کنٹرول پر کشیدگی میں اس وقت اضافہ دیکھنے میں آیا جب گزشتہ ہفتے بھارت نے الزام عائد کیا کہ پاکستان کی طرف سے کی جانے والی فائرنگ سے اس کے پانچ فوجی ہلاک ہوگئے۔ پاکستان نے اس الزام کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایسا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا۔
سابق سیکرٹری خارجہ شمشاد احمد خان بھارتی افواج کی طرف سے مبینہ طور پر مسلسل فائر بندی کی خلاف ورزی کو پاکستان پر دباؤ ڈالنے کا حربہ قرار دیتے ہیں۔
’’انہوں (بھارت) نے دیکھا ہے کہ پاکستان داخلی طور پر اپنے کمزور ترین دور سے گزررہا ہے، اقتصادی اور سیکورٹی اعتبار سے، تو انہوں نے سوچا کہ یہ وقت ہے ضرب لگانے کا تاکہ مذاکرات کو یرغمال بنایا جاسکے۔ انڈیا کا مقصد ہے کہ کمشیر کی بجائے دہشت گردی کو سرفہرست معاملہ بنا دیا جائے۔‘‘
بھارتی عسکری حکام نے خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کو بتایا تھا کہ اتوار کو پاکستانی رینجرز نے کناچک کے مقام پر اس کی چوکی پر فائرنگ کی جس سے سرحدی فورس کا ایک اہلکار زخمی ہوگیا تھا۔
شاہ محمود قریشی کہتے ہیں کہ بین الاقوامی برادری اور بالخصوص امریکہ کو اس موجودہ کشیدگی کو ختم کرنے میں موثر کرادار ادا کرنا چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ دونوں ممالک کو ایسے عوامل اور واقعات کا تدارک کرنا ہوگا جو کہ ان کے تعلقات میں تناؤ کا سبب بنیں۔
’’دونوں طرف ایسی لابی موجود ہے جو معمول کے راستے میں رکاوٹ ہے اور دونوں طرف ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو سمجھتے ہیں کہ تعلقات کو معمول پر لانے سے سب کو فائدہ ہے۔ اب یہاں سیاسی عزم آتا ہے کہ آپ کتنے جذبے سے فیصلوں پر عمل درآمد کرواتے ہیں۔ اگر آپ کے ذہن میں ابہام ہے تو آپ دباؤ میں آتے ہوئے گھٹنے ٹیک دیں گے۔‘‘
پاکستان اور بھارت کے وزراء اعظم کے درمیان آئندہ ماہ نیوریارک میں ملاقات متوقع ہے۔ بعض مبصرین اس ملاقات میں دونوں ممالک کے درمیان تعلقات سے متعلق کوئی خاطر خواہ پیش رفت کی توقع تو نہیں کررہے تاہم پاکستانی حکام کے مطابق وزیراعظم نواز شریف اپنے بھارتی ہم منصب منموہن سنگھ کے سامنے لائن آف کنٹرول پر کشیدگی کا معاملہ اٹھائیں گے۔
دفتر خارجہ کے حکام کے مطابق سفارتکار کو بھارتی سیکورٹی فورسز کی طرف سے لائن آف کنٹرول پر مبینہ ’’بلااشتعال‘‘ فائرنگ کرنے پر پاکستان کی تشویش سے آگاہ کیا گیا اور اس بات پر دوبارہ زور دیا گیا کہ کشیدگی پیدا کرنے والے ایسے واقعات سے بچنے کے لیے روابط کے نظام کو استعمال میں لاتے ہوئے مضبوط بنایا جائے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ لائن آف کنٹرول پر موجودہ کشیدگی دونوں ہمسایہ ممالک کے تعلقات بہتر بنانے کی کوششوں کے لیے شدید نقصان دہ ثابت ہوسکتی ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اس حالیہ کشیدگی کو بے معنی قرار دیتے ہوئے کہا کہ بھارت کی داخلی سیاسی صورتحال بھی ممکنہ طور پر اس کی ایک بڑی وجہ ہے۔
’’الیکشن کا دور ہے اور کانگرس اور بھارتی جنتا پارٹی ایک دوسرے پر سبقت حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہیں کہ وہ کتنے محب وطن ہیں اور کون جارحانہ رویہ رکھتا ہے۔‘‘
ان کے مطابق بھارتی پارلیمان کے ایوان زیریں یعنی لوک سبھا میں جارجانہ تقاریر اور اس کے بعد نئی دہلی میں پاکستانی ہائی کمیشن کے باہر مظاہرے نے حالات کو مزید الجھایا ہے۔
شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ موجودہ کشیدگی سے خطے اور بالخصوص افغانستان کے سلامتی سے متعلق حالات پر بھی برے اثرات مرتب ہوں گے جہاں سے 2014 میں امریکہ سمیت بین الاقوامی افواج کا انخلاء ہوجائے گا۔
لائن آف کنٹرول پر فائر حد بندی کی مبینہ خلاف ورزی کے تازہ واقعے میں پاکستانی حکام کے بقول بھارتی فوجیوں نے اتوار اور پیر کی درمیانی شب پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے بٹل، چڑی کوٹ اور ستوال سیکٹرز میں’’بلا اشتعال‘‘ فائرنگ کی جس میں ایک شہری ہلاک اور ایک خاتون کے زخمی ہونے کی اطلاعات ملی ہیں۔
رواں ماہ کے اوائل سے ایک بار پھر دونوں ملکوں کے درمیان کشمیر کی لائن آف کنٹرول پر کشیدگی میں اس وقت اضافہ دیکھنے میں آیا جب گزشتہ ہفتے بھارت نے الزام عائد کیا کہ پاکستان کی طرف سے کی جانے والی فائرنگ سے اس کے پانچ فوجی ہلاک ہوگئے۔ پاکستان نے اس الزام کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایسا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا۔
سابق سیکرٹری خارجہ شمشاد احمد خان بھارتی افواج کی طرف سے مبینہ طور پر مسلسل فائر بندی کی خلاف ورزی کو پاکستان پر دباؤ ڈالنے کا حربہ قرار دیتے ہیں۔
’’انہوں (بھارت) نے دیکھا ہے کہ پاکستان داخلی طور پر اپنے کمزور ترین دور سے گزررہا ہے، اقتصادی اور سیکورٹی اعتبار سے، تو انہوں نے سوچا کہ یہ وقت ہے ضرب لگانے کا تاکہ مذاکرات کو یرغمال بنایا جاسکے۔ انڈیا کا مقصد ہے کہ کمشیر کی بجائے دہشت گردی کو سرفہرست معاملہ بنا دیا جائے۔‘‘
بھارتی عسکری حکام نے خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کو بتایا تھا کہ اتوار کو پاکستانی رینجرز نے کناچک کے مقام پر اس کی چوکی پر فائرنگ کی جس سے سرحدی فورس کا ایک اہلکار زخمی ہوگیا تھا۔
شاہ محمود قریشی کہتے ہیں کہ بین الاقوامی برادری اور بالخصوص امریکہ کو اس موجودہ کشیدگی کو ختم کرنے میں موثر کرادار ادا کرنا چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ دونوں ممالک کو ایسے عوامل اور واقعات کا تدارک کرنا ہوگا جو کہ ان کے تعلقات میں تناؤ کا سبب بنیں۔
’’دونوں طرف ایسی لابی موجود ہے جو معمول کے راستے میں رکاوٹ ہے اور دونوں طرف ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو سمجھتے ہیں کہ تعلقات کو معمول پر لانے سے سب کو فائدہ ہے۔ اب یہاں سیاسی عزم آتا ہے کہ آپ کتنے جذبے سے فیصلوں پر عمل درآمد کرواتے ہیں۔ اگر آپ کے ذہن میں ابہام ہے تو آپ دباؤ میں آتے ہوئے گھٹنے ٹیک دیں گے۔‘‘
پاکستان اور بھارت کے وزراء اعظم کے درمیان آئندہ ماہ نیوریارک میں ملاقات متوقع ہے۔ بعض مبصرین اس ملاقات میں دونوں ممالک کے درمیان تعلقات سے متعلق کوئی خاطر خواہ پیش رفت کی توقع تو نہیں کررہے تاہم پاکستانی حکام کے مطابق وزیراعظم نواز شریف اپنے بھارتی ہم منصب منموہن سنگھ کے سامنے لائن آف کنٹرول پر کشیدگی کا معاملہ اٹھائیں گے۔