پاکستان میں سیاست دان اور مبصرین دونوں نے نواز شریف اور منموہن سنگھ کی ملاقات کو ہمسایہ ممالک کے تعلقات میں بہتری کے لیے مثبت قدم قرار دیا ہے۔
اسلام آباد —
پاکستان میں قانون سازوں کا کہنا ہے کہ وزیرِ اعظم نواز شریف اور اُن کے بھارتی ہم منصب کے درمیان نیو یارک میں ہونے والی ملاقات دوطرفہ جامع امن مذاکرات کی بحالی میں مددگار ثابت ہو گی۔
اسلام آباد میں نئی حکومت کے اقتدار سنبھالنے کے چند ہفتوں بعد ہی کشمیر میں حد بندی لائن پر پے در پے فائرنگ کے واقعات سے پاک بھارت تعلقات کشیدگی کا شکار ہو گئے تھے۔
اس کشیدگی کو کم کرنے کے لیے اسلام آباد کے مسلسل مطالبے پر نئی دہلی کی جانب سے خاطر خواہ ردعمل دیکھنے میں نہ آیا اور مبصرین نے منموہن حکومت کے اس رویے کی وجہ بھارت کی اندرونی سیاسی صورت حال کو گردانا۔
تاہم اتوار کو امریکہ میں نواز شریف اور منموہن سنگھ کے درمیان ہونے والی ملاقات کو سیاست دان اور مبصرین دونوں نے ہمسایہ ممالک کے تعلقات میں بہتری کے لیے مثبت قدم قرار دیا ہے۔
حزب اختلاف کی جماعت پاکستان مسلم لیگ (ق) کے قانون ساز کامل علی آغا کا وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہنا تھا کہ پاکستان کی طرف سے اقوام متحدہ کے تحت لائن آف کنٹرول پر ہونے والی خلاف ورزیوں کی تحقیقات کا مطالبہ بھارت کو دفاعی پوزیشن پر لایا۔
’’وہ پاکستان پر جو الزامات لگا چکے تھے ان سے وہ بیک آؤٹ بھی نہیں ہونا چاہ رہے تھے۔ تو انھوں نے اچھی گیم کھیلی ہے اور اس بات پر راضی ہوئے کہ ڈی جی ایم اوز (اعلیٰ عسکری عہدیدار) بیٹھ کر معاملہ حل کر لیں جب کہ فائر بندی ہو چکی ہے اور اس پر عمل در آمد دونوں ملکوں کی ذمہ داری ہے۔‘‘
پاکستان اور بھارت کے درمیان لائن آف کنٹرول پر فائرنگ کے واقعات کی روک تھام کے لیے مختلف سطح پر روابط کا نظام موجود ہے اور گزشتہ چند سالوں میں ہونے والے مذاکرات میں انھیں مزید فعال اور موثر بنانے کے مزید اقدامات پر بھی اتفاق ہوا تھا۔
حمکران جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سنیٹر مشاہد اللہ خان کہتے ہیں کہ دونوں ممالک کے رہنماوں کو ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے کشیدگی اور تناؤ کی سیاست کو ترک کرکے خطے میں امن اور اپنے عوام کو درپیش تعلیم، صحت، روزگار اور خوراک جیسی سنگین مشکلات کے لیے اقدامات کرنے چاہیئں۔
’’دونوں طرف کے رہنماؤں کو دیکھنا چاہیے کہ وہ یہاں پر رہنے والے ایک ارب 40 کروڑ افراد کو کیوں اپنی انا کی بھیٹ چڑہاتے ہیں۔ وہ سرخرو اس دن ہوں گے جب کوئی فٹ پاتھ پر نہیں سوئے گا۔ جب لوگوں کو کپڑے پہننے کے لیے میسر ہوں گے۔‘‘
انھوں نے اس تاثر کو رد کیا کہ نواز شریف حکومت کا بھارت سے تعلقات سے متعلق رویہ غیر ضروری طور پر کمزور رہا۔
’’یہاں بات ہوتی ہے۔ یہاں ایگریسیو یا ڈیفنسیو ہونا کوئی چیز نہیں ہوتی۔ وہ نرندر مودی تو نہیں۔ نواز شریف اسٹیٹسمین ہیں۔ اسٹیٹسمین زیادہ جذبات میں یا اوفنسیو ہو کر بات نہیں کرتے۔ بات تو انھوں نے پوری کی ہے۔‘‘
پاکستان تحریک انصاف کے قانون ساز اسد عمر پاک بھارت جامع مذاکرات کے بارے میں کہتے ہیں کہ بھارت کی موجودہ سیاسی صورت حال کے پیش نظر پاکستان کی طرف سے اس کی بحالی پر زور سود مند نا ہو گا۔
’’الیکشن کے لیے جا رہے ہیں اس لیے چھوٹی سے چھوٹی چیز کو سیاسی فائدے کے لیے استعمال کیا جائے گا۔ تو بہتر ہوگا کہ بات چیت کے عمل کو آپ اپنی طرف سے زیادہ پش کرنے کی کوشش نا کریں۔ ایک طرف سے کمزوری نظر آرہی ہو اور آپ پھر بھی آگے بڑھیں تو اس سے مذاکرات کے کامیاب ہونے کے امکان کم ہو جاتے ہیں۔‘‘
سرکاری حکام کے مطابق وزیر اعظم نواز شریف بھارت سے ایسے تعلقات کے خواہاں ہیں جن سے دونوں ہمسایہ ممالک کے درمیان امن اور معاشی تعاون کو فروغ ملے۔
اسلام آباد میں نئی حکومت کے اقتدار سنبھالنے کے چند ہفتوں بعد ہی کشمیر میں حد بندی لائن پر پے در پے فائرنگ کے واقعات سے پاک بھارت تعلقات کشیدگی کا شکار ہو گئے تھے۔
اس کشیدگی کو کم کرنے کے لیے اسلام آباد کے مسلسل مطالبے پر نئی دہلی کی جانب سے خاطر خواہ ردعمل دیکھنے میں نہ آیا اور مبصرین نے منموہن حکومت کے اس رویے کی وجہ بھارت کی اندرونی سیاسی صورت حال کو گردانا۔
تاہم اتوار کو امریکہ میں نواز شریف اور منموہن سنگھ کے درمیان ہونے والی ملاقات کو سیاست دان اور مبصرین دونوں نے ہمسایہ ممالک کے تعلقات میں بہتری کے لیے مثبت قدم قرار دیا ہے۔
حزب اختلاف کی جماعت پاکستان مسلم لیگ (ق) کے قانون ساز کامل علی آغا کا وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہنا تھا کہ پاکستان کی طرف سے اقوام متحدہ کے تحت لائن آف کنٹرول پر ہونے والی خلاف ورزیوں کی تحقیقات کا مطالبہ بھارت کو دفاعی پوزیشن پر لایا۔
’’وہ پاکستان پر جو الزامات لگا چکے تھے ان سے وہ بیک آؤٹ بھی نہیں ہونا چاہ رہے تھے۔ تو انھوں نے اچھی گیم کھیلی ہے اور اس بات پر راضی ہوئے کہ ڈی جی ایم اوز (اعلیٰ عسکری عہدیدار) بیٹھ کر معاملہ حل کر لیں جب کہ فائر بندی ہو چکی ہے اور اس پر عمل در آمد دونوں ملکوں کی ذمہ داری ہے۔‘‘
پاکستان اور بھارت کے درمیان لائن آف کنٹرول پر فائرنگ کے واقعات کی روک تھام کے لیے مختلف سطح پر روابط کا نظام موجود ہے اور گزشتہ چند سالوں میں ہونے والے مذاکرات میں انھیں مزید فعال اور موثر بنانے کے مزید اقدامات پر بھی اتفاق ہوا تھا۔
حمکران جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سنیٹر مشاہد اللہ خان کہتے ہیں کہ دونوں ممالک کے رہنماوں کو ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے کشیدگی اور تناؤ کی سیاست کو ترک کرکے خطے میں امن اور اپنے عوام کو درپیش تعلیم، صحت، روزگار اور خوراک جیسی سنگین مشکلات کے لیے اقدامات کرنے چاہیئں۔
’’دونوں طرف کے رہنماؤں کو دیکھنا چاہیے کہ وہ یہاں پر رہنے والے ایک ارب 40 کروڑ افراد کو کیوں اپنی انا کی بھیٹ چڑہاتے ہیں۔ وہ سرخرو اس دن ہوں گے جب کوئی فٹ پاتھ پر نہیں سوئے گا۔ جب لوگوں کو کپڑے پہننے کے لیے میسر ہوں گے۔‘‘
انھوں نے اس تاثر کو رد کیا کہ نواز شریف حکومت کا بھارت سے تعلقات سے متعلق رویہ غیر ضروری طور پر کمزور رہا۔
’’یہاں بات ہوتی ہے۔ یہاں ایگریسیو یا ڈیفنسیو ہونا کوئی چیز نہیں ہوتی۔ وہ نرندر مودی تو نہیں۔ نواز شریف اسٹیٹسمین ہیں۔ اسٹیٹسمین زیادہ جذبات میں یا اوفنسیو ہو کر بات نہیں کرتے۔ بات تو انھوں نے پوری کی ہے۔‘‘
پاکستان تحریک انصاف کے قانون ساز اسد عمر پاک بھارت جامع مذاکرات کے بارے میں کہتے ہیں کہ بھارت کی موجودہ سیاسی صورت حال کے پیش نظر پاکستان کی طرف سے اس کی بحالی پر زور سود مند نا ہو گا۔
’’الیکشن کے لیے جا رہے ہیں اس لیے چھوٹی سے چھوٹی چیز کو سیاسی فائدے کے لیے استعمال کیا جائے گا۔ تو بہتر ہوگا کہ بات چیت کے عمل کو آپ اپنی طرف سے زیادہ پش کرنے کی کوشش نا کریں۔ ایک طرف سے کمزوری نظر آرہی ہو اور آپ پھر بھی آگے بڑھیں تو اس سے مذاکرات کے کامیاب ہونے کے امکان کم ہو جاتے ہیں۔‘‘
سرکاری حکام کے مطابق وزیر اعظم نواز شریف بھارت سے ایسے تعلقات کے خواہاں ہیں جن سے دونوں ہمسایہ ممالک کے درمیان امن اور معاشی تعاون کو فروغ ملے۔