مبصرین کا کہنا ہے کہ دونوں ممالک میں روابط اور بات چیت کے عمل کے جاری رہنے سے ہی غلط فہمیوں میں کمی اور تعلقات میں بہتری ممکن ہے
اسلام آباد —
جنوبی ایشیاء کی ہمسایہ ایٹمی طاقتوں کے وزرائے اعظم کے درمیان ملاقات سے پہلے بھارتی رہنماؤں کی جانب سے پاکستان سے متعلق جارحانہ بیانات مبصرین اور سیاست دانوں کے بقول بھارت کی داخلی سیاسی صورتحال کی عکاسی کرتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اسی وجہ سے نیویارک میں ہونے والی نواز، منموہن بات چیت میں کسی بڑی پیش رفت کی توقع نہیں کی جاسکتی۔
بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ نے ہفتے کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اپنے خطاب میں الزام لگایا کہ پاکستان دہشت گردی کا مرکز ہے اور بھارت کے خلاف سرحد پار سے ایسی کارروائیاں ہورہی ہیں۔ انہوں کہا کہ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کی بہتری کے لیے ضروری ہے کہ ایسی کارروائیوں کو روکا جائے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں تجزیہ نگار اور انگریزی اخبار ڈیلی ٹائمز کے ایڈیٹر راشد رحمان کا کہنا تھا کہ حزب اختلاف اور دیگر قدامت پسند جماعتوں کے مطالبات کے برعکس اور ’’اسپوئلرز‘‘ کے نرغے سے بچتے ہوئے کانگرس حکومت وزرائے اعظم کی ملاقات کے لیے آمادہ ہوئی۔
’’مگر کانگرس کی حکومت الیکشن میں جارہی ہے۔ کرپشن کے حوالے سے سیاسی پوزیشن قدرے کمزور ہے تو منموہن صاحب کو ایک متوازن ایکٹ کرنا پڑرہا ہے کہ انٹرنیشنل پوسچر اور پاکستان کے ساتھ پوسچر نامناسب نا لگے اور مقامی مخالفین کو بھی ٹھنڈا رکھا جائے۔‘‘
مبصرین اور بعض سرکاری عہدیداروں کا کہنا ہے کہ بھارتی قیادت کی طرف سے تندوتیز بیان کے باوجود وزیراعظم نواز شریف کی جانب سے دہشت گردی سمیت تمام مسائل کے حل کے لیے حامع مذاکرات کو دوبارہ شروع کرنے پر زور دیا جائے گا۔ راشد رحمان کہتے ہیں۔
’’وسطی ایشیا، روس، چین چاہتے ہیں کہ پاکستان کے رستے تجارت اور اقتصادی تعاون ہو اور انڈین تجارتی مارکیٹ بھی پاکستان کے رستے ہو جائے تو پوری دنیا اسے سراہے گی تو نواز شریف صاحب ابھی بھی یہی کوشش کررہے ہیں۔‘‘
ادھر بھارتی وزیر خارجہ سلمان خوشید نے نیویارک میں وائس آف امریکہ سے خصوصی گفتگو میں بتایا کہ نواز شریف سے ملاقات میں انسداد دہشت گردی کا موضوع منموہن سنگھ کے ایجنڈے میں سر فہرست ہوگا۔ انہوں نے پاکستانی افواج اور اس کے خفیہ ادارے پر الزام عائد کیا کہ وہ پاکستان بھارت بات چیت سے خوش نہیں اور اسے سبوتاژ کرنے کی کوششیں کررہے ہیں۔
تاہم پاکستان کی قومی سلامتی کے سابق مشیر لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ محمود درانی کہتے ہیں کہ ’’ان کی سوئی اس پر پھنسی ہوئی ہے۔ میرے خیال میں کشمیر پر پاکستان کا اخلاقی موقف مقدم ہے جبکہ بھارت کی پوزیشن کمزور ہے تو اس سے توجہ ہٹانے کی کوشش ہے۔‘‘
مبصرین کا کہنا ہے کہ دونوں ممالک میں روابط اور بات چیت کے عمل کے جاری رہنے سے ہی غلط فہمیوں میں کمی اور تعلقات میں بہتری ممکن ہے وگرنہ غیر ریاستی عناصر ہمسایہ ملکوں میں کشیدگی سے فائدہ اٹھاتے رہیں گے۔
بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ نے ہفتے کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اپنے خطاب میں الزام لگایا کہ پاکستان دہشت گردی کا مرکز ہے اور بھارت کے خلاف سرحد پار سے ایسی کارروائیاں ہورہی ہیں۔ انہوں کہا کہ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کی بہتری کے لیے ضروری ہے کہ ایسی کارروائیوں کو روکا جائے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں تجزیہ نگار اور انگریزی اخبار ڈیلی ٹائمز کے ایڈیٹر راشد رحمان کا کہنا تھا کہ حزب اختلاف اور دیگر قدامت پسند جماعتوں کے مطالبات کے برعکس اور ’’اسپوئلرز‘‘ کے نرغے سے بچتے ہوئے کانگرس حکومت وزرائے اعظم کی ملاقات کے لیے آمادہ ہوئی۔
’’مگر کانگرس کی حکومت الیکشن میں جارہی ہے۔ کرپشن کے حوالے سے سیاسی پوزیشن قدرے کمزور ہے تو منموہن صاحب کو ایک متوازن ایکٹ کرنا پڑرہا ہے کہ انٹرنیشنل پوسچر اور پاکستان کے ساتھ پوسچر نامناسب نا لگے اور مقامی مخالفین کو بھی ٹھنڈا رکھا جائے۔‘‘
مبصرین اور بعض سرکاری عہدیداروں کا کہنا ہے کہ بھارتی قیادت کی طرف سے تندوتیز بیان کے باوجود وزیراعظم نواز شریف کی جانب سے دہشت گردی سمیت تمام مسائل کے حل کے لیے حامع مذاکرات کو دوبارہ شروع کرنے پر زور دیا جائے گا۔ راشد رحمان کہتے ہیں۔
’’وسطی ایشیا، روس، چین چاہتے ہیں کہ پاکستان کے رستے تجارت اور اقتصادی تعاون ہو اور انڈین تجارتی مارکیٹ بھی پاکستان کے رستے ہو جائے تو پوری دنیا اسے سراہے گی تو نواز شریف صاحب ابھی بھی یہی کوشش کررہے ہیں۔‘‘
ادھر بھارتی وزیر خارجہ سلمان خوشید نے نیویارک میں وائس آف امریکہ سے خصوصی گفتگو میں بتایا کہ نواز شریف سے ملاقات میں انسداد دہشت گردی کا موضوع منموہن سنگھ کے ایجنڈے میں سر فہرست ہوگا۔ انہوں نے پاکستانی افواج اور اس کے خفیہ ادارے پر الزام عائد کیا کہ وہ پاکستان بھارت بات چیت سے خوش نہیں اور اسے سبوتاژ کرنے کی کوششیں کررہے ہیں۔
تاہم پاکستان کی قومی سلامتی کے سابق مشیر لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ محمود درانی کہتے ہیں کہ ’’ان کی سوئی اس پر پھنسی ہوئی ہے۔ میرے خیال میں کشمیر پر پاکستان کا اخلاقی موقف مقدم ہے جبکہ بھارت کی پوزیشن کمزور ہے تو اس سے توجہ ہٹانے کی کوشش ہے۔‘‘
مبصرین کا کہنا ہے کہ دونوں ممالک میں روابط اور بات چیت کے عمل کے جاری رہنے سے ہی غلط فہمیوں میں کمی اور تعلقات میں بہتری ممکن ہے وگرنہ غیر ریاستی عناصر ہمسایہ ملکوں میں کشیدگی سے فائدہ اٹھاتے رہیں گے۔