بھارت کے وزیراعظم نریندرمودی نے جمعہ کو پاکستانی ہم منصب نواز شریف سے ٹیلی فون پر رابطہ کیا اور اُنھیں بتایا کہ نئے بھارتی سیکرٹری خارجہ جلد تمام سارک ممالک کا دورہ کریں گے اور وہ پاکستان بھی جانا چاہیں گے۔
بھارت کے سیکرٹری خارجہ کے متوقع دورہ پاکستان کو دونوں ملکوں کے تعلقات میں بہتری کی جانب ایک پیش رفت تصور کیا جا رہا ہے کیوں کہ گزشتہ سال اگست میں بھارت نے دونوں ملکوں کے سیکرٹری خارجہ سطح کے اسلام آباد میں ہونے والے مذاکرات یکطرفہ طور پر منسوخ کر دیے تھے۔
بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ’ٹوئٹر‘ پر اپنے پیغام میں کہا کہ سارک ممالک میں شامل پانچ ملکوں کی کرکٹ ٹیمیں ورلڈ کپ ٹورنامنٹ میں حصہ لے رہی ہیں، اور اُنھوں نے پاکستانی ہم منصب نواز شریف کے علاوہ، افغان صدر اشرف غنی، بنگلہ دیش کی وزیراعظم حسینہ واجد اور سری لنکا کے صدر سے بھی ٹیلی فون پر رابطہ کر کے اُن کے ممالک کی ٹیموں کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کیا۔
نریندر مودی کا کہنا تھا کہ کرکٹ خطے کے عوامی رابطے کا سبب بنتا ہے اور خیر سگالی کو فروغ دیتا ہے۔ اُنھوں نے اس توقع کا اظہار بھی کیا کہ سارک ممالک سے تعلق رکھنے والی ٹیموں کے کھلاڑی پورے جوش سے کھیلتے ہوئے خطے کے لیےکامیابی حاصل کریں گے۔
پاکستان کی قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے اُمور خارجہ کے رکن رانا محمد افضل نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ خطے میں امن کے لیے دونوں ملکوں کے درمیان مذاکرات ضروری ہیں۔
اُدھر پاکستان کے سرکاری میڈیا کے مطابق وزیراعظم نواز شریف نے ایک بار پھر کہا ہے کہ ان کا ملک بھارت کے ساتھ تمام تنازعات کا مذاکرات کے ذریعے حل چاہتا ہے۔
دونوں رہنماؤں نے دو طرفہ تعلقات اور باہمی دلچسپی کے امور پر تبادلہ خیال کیا۔
نواز شریف کا اس موقع پر کہنا تھا کہ پاکستان اپنے تمام ہمسایوں کے ساتھ دوستانہ تعلقات کا خواہاں ہے۔ ان کے بقول پاکستان اور بھارت کے درمیان مذاکرات خطے میں سلامتی اور استحکام کے لیے بہت اہم ہیں۔
دونوں ہمسایہ ایٹمی قوتوں کے درمیان تعلقات میں حالیہ مہینوں میں ایک بار پھر تناؤ دیکھا گیا اور دونوں ملک ہی مذاکرات کے خواہش ظاہر کرنے کے ساتھ ساتھ یہ کہہ چکے ہیں بات چیت کے لیے پہل دوسرا فریق کرے۔
نریندر مودی کی ٹیلی فون کال سے قبل جمعرات کو دیر گئے امریکہ کے صدر براک اوباما نے بھی پاکستانی وزیراعظم کو فون کیا تھا جس میں انھوں نے نواز شریف کو اپنے حالیہ دورہ بھارت کی تفصیلات سے آگاہ کیا تھا۔
وائٹ ہاؤس سے جاری بیان کے مطابق صدر اوباما نے کہا کہ امریکہ پاکستان اور بھارت کی جانب اپنے تعلقات بہتر بنانے کی تمام کوششوں کی حمایت کرتا ہے۔ انھوں نے پاک امریکہ تعلقات کو مزید مضبوط بنانے، پاکستان اور خطے کو مستحکم و محفوظ اور ترقی یافتہ بنانے کے لیے مل کر کام کرنے پر اتفاق کیا۔
پاکستانی وزیراعظم نے صدر اوباما پر واضح کیا کہ ان کا ملک بھارت کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں مستقل رکنیت دینے کی تجویز کا مخالف ہے جس کی وجہ کشمیر سے متعلق عالمی تنظیم کی قراردادوں کی بھارت کی طرف سے ان کے بقول خلاف ورزیاں ہیں۔
نواز شریف نے اس موقع پر پاکستان کو "نیوکلیئر سپلائر گروپ" میں شامل کرنے کا معاملہ بھی اٹھایا۔
دونوں رہنماؤں کے درمیان نصف گھنٹے تک جاری رہنے والی گفتگو میں پاکستان میں شدت پسندوں کے خلاف جاری فوجی آپریشن ضرب عضب پر بھی تبادلہ خیال ہوا اور سرکاری بیان کے مطابق صدر اوباما نے انسداد دہشت گردی کے لیے پاکستانی کاوشوں کو سراہا۔