پاکستان کی طرف سے کہا گیا کہ بھارت کے دورے پر گئے ہوئے پاکستانی طالب علموں کو مبینہ طور پر ہندو شدت پسند تنظیم کی دھمکیوں کے بعد طے شدہ وقت سے قبل ہی واپس بھیجنے کا معاملہ بھارت سے سفارتی سطح پر اُٹھایا جائے گا۔
پاکستان کے 50 طالب علم اپنے اساتذہ کے ہمراہ یکم مئی کو بھارت گئے تھے، اُنھیں بھارت کی ایک غیر سرکاری تنظیم نے اس دورے کی دعوت دی تھی لیکن بدھ کو پاکستانی طالب علموں اور اساتذہ کو واہگہ بارڈر کے ذریعے واپس بھیج دیا گیا۔
پاکستانی حکام کی طرف سے کہا گیا کہ اس واقعہ سے بھارت میں عدم برداشت کے بڑھتے ہوئے رویوں کی عکاسی ہوتی ہے۔
پاکستان کی وزارت خارجہ کے ترجمان نفیس ذکریا نے ایک بیان کہا کہ پاکستانی طالب علموں کے 50 رکنی ثقافتی وفد کو ’’ہندو انتہا پسندوں‘‘ کے خوف سے واپس بھیجا دیا گیا جب کہ اس سے قبل ممبئی میں پاکستانی فیشن ڈیزائنر ’’زار اسٹور پر حملہ کیا گیا‘‘۔
اُنھوں نے کہا کہ اس سے قبل بھی کئی پاکستانی فنکاروں کو بھارت کے دورے سے روکا گیا۔ نفیس ذکریا کے مطابق بھارت میں عدم برداشت کے واقعات پر بین الاقوامی برداری میں بھی تحفظات پائے جاتے ہیں۔
ترجمان کا کہنا تھا کہ جہاں بھی ضرورت پڑی پاکستان نے اپنے خدشات عالمی برداری کے سامنے اٹھائے۔
تجزیہ کار اور پاکستان و بھارت کے درمیان بات چیت کے عمل کے حامی اے ایچ نئیر نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ دوطرفہ تعلقات بہتر بنانے کے لیے عوام کی سطح پر رابطے اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
’’عوام کے درمیان رابطے اگر ختم ہو گئے، تو ریاستوں کے درمیان قریب آنا اور بھی مشکل ہو جائے گا۔ یہ بدقسمتی ہے، پاکستان اور بھارت کی حکومت کو اس سے (اجتناب) کرنا چاہیئے۔‘‘
واضح رہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان رواں ہفتے ایک مرتبہ پھر کشیدگی میں اضافہ دیکھنے میں آیا۔
بھارت کا موقف کہ کشمیر میں لائن آف کنٹرول پر پاکستانی فوج نے دو بھارتی فوجیوں کو ہلاک اور اُن کی لاشوں کو مسخ کیا۔
پاکستان کی فوج کی طرف سے اس الزام کی تردید کرتے ہوئے کہا گیا کہ نا تو پاکستانی فوج نے ’ایل او سی‘ پر فائر بندی معاہدے کی خلاف ورزی کی اور نا ہی کسی بھارتی فوج کی لاش کی بے حرمتی کی گئی۔
دوطرفہ کشیدگی کے بعد ہندو انتہا پسند تنظیم کی طرف سے پاکستانی طالب علموں کے دورہ بھارت کے بارے میں دھمکی دی گئی تھی۔
بظاہر اسی تناؤ کے تناظر میں بھارتی حکومت نے غیر سرکاری تنظیم ’روٹس ٹو روٹس‘ سے کہا تھا کہ پاکستانی طالب علموں کی میزبانی کے لیے یہ وقت مناسب نہیں ہے۔
بھارتی حکومت کے مشورے کے بعد پاکستانی طالب علموں کو بدھ کو واپس بھیج دیا گیا۔
کشمیر میں لائن آف کنٹرول پر بٹل سیکڑ میں دو بھارتی فوجیوں کی ہلاکت اور اُن کی لاشوں کی مبینہ بے حرمتی کے معاملے پر بدھ کو بھارت نے نئی دہلی میں تعینات پاکستان کے سفیر عبدالباسط کو بھی طلب کر کے اُن سے احتجاج کیا۔
اس معاملے پر منگل کو پاکستان اور بھارت کے ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز کے درمیان منگل کو ’ہاٹ لائن‘ پر بھی رابطہ ہوا تھا۔
بھارت کے وزیر دفاع ارون جیٹلی نے پاکستانی فوج کے اس موقف کی تردید کہ وہ بھارتی فوجیوں کی ہلاکت میں ملوث نہیں ہے۔
اس بارے میں پاکستانی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ اشتعال انگیز بیانات سے خطے کی صورتحال مزید خراب ہو سکتی ہے۔