اس ورکنگ گروپ کا مقصد لائن آف کنٹرول کے آر پار سامان تجارت کی نقل و حمل کو بہتر اور اس کے طریقہ کار کو پائیدار بنانے پر تبادلہ خیال کرنا ہے۔
اسلام آباد —
پاکستان اور بھارت کے درمیا ن متنازع علاقے کشمیر کو منقسم کرنے والی عارضی حد بندی یعنی لائن آف کنٹرول پر اعتماد سازی کے فروغ کے لیے دونوں ملکوں کے مشترکہ ورکنگ گروپ کا اجلاس منگل کو نئی دہلی میں ہوا۔
ہمسایہ ایٹمی قوتوں کے درمیان یہ اجلاس ایک ایسے موقع پر ہو رہا ہے جب رواں سال جنوری میں پاکستانی کشمیر سے سامان تجارت والے ٹرکوں کے ایک ڈرائیور سے مبینہ طور پر منشیات برآمد ہونے کے معاملے پر بھارتی حکام نے ٹرکوں کو روک لیا تھا اور دونوں طرف سے تجارتی سرگرمیاں لگ بھگ ایک ماہ تک معطل رہیں۔
ورکنگ گروپ کے اجلاس میں پاکستانی وفد کی قیادت دفتر خارجہ میں ڈائریکٹر جنرل جنوبی ایشیا رفعت مسعود جب کہ بھارت کی نمائندگی وزارت خارجہ کے جائنٹ سیکرٹری ردرندر ٹنڈن کر رہے ہیں۔
کشمیر کے معاملے پر دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات شروع ہی سے اتار چڑھاؤ کا شکار رہے ہیں جب کہ گزشتہ برس پڑوسی ملکوں کی طرف سے ایک دوسرے پر فائر بندی کی خلاف ورزی کے الزامات کے بعد صورتحال کشیدہ ہوگئی تھی۔ لیکن بعد ازاں اعلیٰ سطحی فوجی رابطوں سے ماحول قدرے خوشگوار ہو گیا۔
لائن آف کنٹرول سے متعلق ورکنگ گروپ کے اجلاس کے بارے میں مبصرین کچھ اتنے پرامید دکھائی نہیں دیتے تاہم ان کا کہنا ہے کہ دونوں کے درمیان ایسے رابطے بہر حال اچھا شگون ہیں۔
سابق سفارتکار ظفر ہلالی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ لائن آف کنٹرول پر پیش آنے والے کسی بھی چھوٹے سے واقعے کے دونوں ملکوں کے مجموعی تعلقات پر اثر پڑتا ہے جسے بہتر بنانے کے لیے مزید موثر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔
’’اس طریقے سے تو نہیں چلے گا کہ اگر کوئی چھوٹی سی چیز ہو جائے اور آپ پوری مشینری اس طرح بند کردیں۔ آپ اگر کسی کو اس طرح گرفتار کرتے ہیں تو دوسرے لوگ بھی متنبہ ہو جاتے ہیں پھر تجارت رک جاتی ہے وغیر وغیرہ۔ تو اس لیے میرے خیال میں یہ لوگ (ورکنگ گروپ) گئے ہیں کہ دیکھیں اس کو حل کیا جاسکے۔‘‘
ورکنگ گروپ کا یہ اجلاس تقریباً ڈیڑھ سال کے بعد ہورہا ہے جس کے انعقاد کا فیصلہ 25 جنوری کو سیکرٹری خارجہ اعزاز احمد چودھری اور اسلام آباد میں بھارتی ہائی کمشنر ٹی سی اے راگھون کے درمیان ملاقات میں کیا گیا۔
اس ورکنگ گروپ کا مقصد لائن آف کنٹرول کے آر پار سامان تجارت کی نقل و حمل کو بہتر اور اس کے طریقہ کار کو پائیدار بنانے پر تبادلہ خیال کرنا ہے۔
ہمسایہ ایٹمی قوتوں کے درمیان یہ اجلاس ایک ایسے موقع پر ہو رہا ہے جب رواں سال جنوری میں پاکستانی کشمیر سے سامان تجارت والے ٹرکوں کے ایک ڈرائیور سے مبینہ طور پر منشیات برآمد ہونے کے معاملے پر بھارتی حکام نے ٹرکوں کو روک لیا تھا اور دونوں طرف سے تجارتی سرگرمیاں لگ بھگ ایک ماہ تک معطل رہیں۔
ورکنگ گروپ کے اجلاس میں پاکستانی وفد کی قیادت دفتر خارجہ میں ڈائریکٹر جنرل جنوبی ایشیا رفعت مسعود جب کہ بھارت کی نمائندگی وزارت خارجہ کے جائنٹ سیکرٹری ردرندر ٹنڈن کر رہے ہیں۔
کشمیر کے معاملے پر دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات شروع ہی سے اتار چڑھاؤ کا شکار رہے ہیں جب کہ گزشتہ برس پڑوسی ملکوں کی طرف سے ایک دوسرے پر فائر بندی کی خلاف ورزی کے الزامات کے بعد صورتحال کشیدہ ہوگئی تھی۔ لیکن بعد ازاں اعلیٰ سطحی فوجی رابطوں سے ماحول قدرے خوشگوار ہو گیا۔
لائن آف کنٹرول سے متعلق ورکنگ گروپ کے اجلاس کے بارے میں مبصرین کچھ اتنے پرامید دکھائی نہیں دیتے تاہم ان کا کہنا ہے کہ دونوں کے درمیان ایسے رابطے بہر حال اچھا شگون ہیں۔
سابق سفارتکار ظفر ہلالی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ لائن آف کنٹرول پر پیش آنے والے کسی بھی چھوٹے سے واقعے کے دونوں ملکوں کے مجموعی تعلقات پر اثر پڑتا ہے جسے بہتر بنانے کے لیے مزید موثر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔
’’اس طریقے سے تو نہیں چلے گا کہ اگر کوئی چھوٹی سی چیز ہو جائے اور آپ پوری مشینری اس طرح بند کردیں۔ آپ اگر کسی کو اس طرح گرفتار کرتے ہیں تو دوسرے لوگ بھی متنبہ ہو جاتے ہیں پھر تجارت رک جاتی ہے وغیر وغیرہ۔ تو اس لیے میرے خیال میں یہ لوگ (ورکنگ گروپ) گئے ہیں کہ دیکھیں اس کو حل کیا جاسکے۔‘‘
ورکنگ گروپ کا یہ اجلاس تقریباً ڈیڑھ سال کے بعد ہورہا ہے جس کے انعقاد کا فیصلہ 25 جنوری کو سیکرٹری خارجہ اعزاز احمد چودھری اور اسلام آباد میں بھارتی ہائی کمشنر ٹی سی اے راگھون کے درمیان ملاقات میں کیا گیا۔
اس ورکنگ گروپ کا مقصد لائن آف کنٹرول کے آر پار سامان تجارت کی نقل و حمل کو بہتر اور اس کے طریقہ کار کو پائیدار بنانے پر تبادلہ خیال کرنا ہے۔