چوہدری نثار نے کہا کہ اس وقت حکومت کی طرف سے ایسا کوئی اعلان نہیں کیا گیا کہ وزیرستان یا دیگر علاقوں سے لوگ محفوظ مقامات پر منتقل ہو جائیں۔
اسلام آباد —
پاکستان کے وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار نے کہا ہے کہ ملک کے قبائلی علاقوں میں نا تو فوجی آپریشن کیا جا رہا ہے اور نا ہی اس بارے میں کوئی فیصلہ کیا گیا ہے۔
اُنھوں نے جمعہ کو قومی اسمبلی میں بیان دیتے ہوئے کہا کہ آپریشن کا فیصلہ مشاورت سے ہی کیا جائے گا۔
وزیر داخلہ نے کہا کہ اب تک شدت پسندوں کے ٹھکانوں کے خلاف جو محدود کارروائیاں کی گئی ہیں اُن میں شہریوں کا نقصان نا ہونے کے برابر رہا۔
’’نا ملٹری آپریشن کا فیصلہ ہوا ہے، نا ملٹری آپریشن ہو رہا ہے۔ فوجی آپریشن کا فیصلہ ہوا تو مشاورت ہو گی۔ حکومت کا ہدف ہے کہ کسی بھی (ممکنہ کارروائی میں) عام قبائلیوں کو بالکل نقصان نہ پہنچے مگر اس کو 100 فیصد یقینی نہیں بنایا جا سکتا۔‘‘
چوہدری نثار نے کہا کہ اس وقت حکومت کی طرف سے ایسا کوئی اعلان نہیں کیا گیا کہ وزیرستان یا دیگر علاقوں سے لوگ محفوظ مقامات پر منتقل ہو جائیں۔
’’اگر ہم نے فوری طور پر کیمپ بنا دیئے تو جو لوگ وہاں خیریت سے آباد ہیں وہ بھی کہیں گے کہ آپریشن ہونے والا ہے تو وہاں سے نکلنے والوں کی لہر چل پڑے گی۔ ہم یہ تاثر نہیں دینا چاہتے کہ لوگ اپنے گھروں کو چھوڑ کر عارضی کیمپوں میں آ جائیں۔‘‘
تاہم اُنھوں نے کہا کہ اس کے باوجود اگر لوگ اپنا علاقہ چھوڑ کر نکلے تو اُن کی ہر ممکن معاونت کی جائے گی۔
وزیراعظم نواز شریف کے مشیر برائے اُمور خارجہ و قومی سلامتی سر تاج عزیز نے جمعرات کو کہا تھا کہ وزیرستان میں طالبان شدت پسندوں کے خلاف اب تک کی جانے والی فضائی کارروائیاں موثر رہی ہیں۔
حکومت کی طرف سے مذاکرات کے پیشکش کے باوجود طالبان کی جانب سے فرنٹیئر کور کے 23 مغوی اہلکاروں کے قتل اور دہشت گرد حملوں کی ذمہ قبول کیے جانے کے بعد بات چیت کا عمل تعطل کا شکار ہو گیا۔
طالبان کی نامزد کردہ تین رکنی کمیٹی اور حکومت کے مذاکرات کاروں کے درمیان بات چیت کے کئی دور ہوئے لیکن دہشت گردی کے واقعات کے باعث یہ سلسلہ رک گیا۔
حکومت یہ کہہ چکی ہے کہ دہشت گردی کے حملوں کے ہوتے ہوئے مذاکرات نہیں ہو سکتے۔
اُدھر وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے قومی اُمور اور حکومت کی مذاکراتی کمیٹی کے رابطہ کار عرفان صدیقی نے جمعہ کو وزیراعظم نواز شریف سے ملاقات کی جس میں شست پسندوں سےمذاکرات کے مستقبل سے متعلق اُمور زیر بحث آئے۔
تاہم سرکاری طور پر اس بارے میں مزید تفصیلات فراہم نہیں کی گئی۔ وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار نے جمعرات کو پشاور میں کہا تھا کہ اب بھی بعض گروپوں سے رابطے ہیں اور اُن کے بقول حکومت تشدد کی راہ ترک کرنے والے عسکریت پسندوں سے بات چیت کرنا چاہتی ہے۔
اُنھوں نے جمعہ کو قومی اسمبلی میں بیان دیتے ہوئے کہا کہ آپریشن کا فیصلہ مشاورت سے ہی کیا جائے گا۔
وزیر داخلہ نے کہا کہ اب تک شدت پسندوں کے ٹھکانوں کے خلاف جو محدود کارروائیاں کی گئی ہیں اُن میں شہریوں کا نقصان نا ہونے کے برابر رہا۔
’’نا ملٹری آپریشن کا فیصلہ ہوا ہے، نا ملٹری آپریشن ہو رہا ہے۔ فوجی آپریشن کا فیصلہ ہوا تو مشاورت ہو گی۔ حکومت کا ہدف ہے کہ کسی بھی (ممکنہ کارروائی میں) عام قبائلیوں کو بالکل نقصان نہ پہنچے مگر اس کو 100 فیصد یقینی نہیں بنایا جا سکتا۔‘‘
چوہدری نثار نے کہا کہ اس وقت حکومت کی طرف سے ایسا کوئی اعلان نہیں کیا گیا کہ وزیرستان یا دیگر علاقوں سے لوگ محفوظ مقامات پر منتقل ہو جائیں۔
’’اگر ہم نے فوری طور پر کیمپ بنا دیئے تو جو لوگ وہاں خیریت سے آباد ہیں وہ بھی کہیں گے کہ آپریشن ہونے والا ہے تو وہاں سے نکلنے والوں کی لہر چل پڑے گی۔ ہم یہ تاثر نہیں دینا چاہتے کہ لوگ اپنے گھروں کو چھوڑ کر عارضی کیمپوں میں آ جائیں۔‘‘
تاہم اُنھوں نے کہا کہ اس کے باوجود اگر لوگ اپنا علاقہ چھوڑ کر نکلے تو اُن کی ہر ممکن معاونت کی جائے گی۔
وزیراعظم نواز شریف کے مشیر برائے اُمور خارجہ و قومی سلامتی سر تاج عزیز نے جمعرات کو کہا تھا کہ وزیرستان میں طالبان شدت پسندوں کے خلاف اب تک کی جانے والی فضائی کارروائیاں موثر رہی ہیں۔
حکومت کی طرف سے مذاکرات کے پیشکش کے باوجود طالبان کی جانب سے فرنٹیئر کور کے 23 مغوی اہلکاروں کے قتل اور دہشت گرد حملوں کی ذمہ قبول کیے جانے کے بعد بات چیت کا عمل تعطل کا شکار ہو گیا۔
طالبان کی نامزد کردہ تین رکنی کمیٹی اور حکومت کے مذاکرات کاروں کے درمیان بات چیت کے کئی دور ہوئے لیکن دہشت گردی کے واقعات کے باعث یہ سلسلہ رک گیا۔
حکومت یہ کہہ چکی ہے کہ دہشت گردی کے حملوں کے ہوتے ہوئے مذاکرات نہیں ہو سکتے۔
اُدھر وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے قومی اُمور اور حکومت کی مذاکراتی کمیٹی کے رابطہ کار عرفان صدیقی نے جمعہ کو وزیراعظم نواز شریف سے ملاقات کی جس میں شست پسندوں سےمذاکرات کے مستقبل سے متعلق اُمور زیر بحث آئے۔
تاہم سرکاری طور پر اس بارے میں مزید تفصیلات فراہم نہیں کی گئی۔ وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار نے جمعرات کو پشاور میں کہا تھا کہ اب بھی بعض گروپوں سے رابطے ہیں اور اُن کے بقول حکومت تشدد کی راہ ترک کرنے والے عسکریت پسندوں سے بات چیت کرنا چاہتی ہے۔