وائس آف امریکہ سے اتوار کو گفتگو میں وفاقی وزارت داخلہ کے ترجمان عمر حامد خان کا کہنا تھا کہ غیر ملکی شہریوں اور سفارتی تنصیبات کی سیکورٹی کے لیے تمام تر اقدامات کیے گئے ہیں۔
عالمی پولیس ایجنسی ’انٹرپول‘ کی طرف سے ممکنہ دہشت گردی کے حملوں سے متعلق انتباہ کے تناظر میں پاکستانی وزارت داخلہ نے بھی خفیہ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کو چوکس رہنے کی ہدایت دی ہے۔
انٹرپول نے اپنے 190 رکن ممالک کو متنبہ کیا کہ لیبیا، عراق اور پاکستان میں جیلوں پر حملے القاعدہ کی مربوط کارروائیاں ہوسکتی ہیں۔
امریکی حکومت کی طرف سے بھی اپنے سفارت اور قونصل خانوں پر القاعدہ کے حملوں کے خدشے کے پیش نظر اپنے شہریوں کو رواں ماہ سفری انتباہ جاری کیا گیا جبکہ برطانیہ اور فرانس نے یمن میں اپنے سفارت خانے اتوار کو بند کرنے کا اعلان کر رکھا ہے۔
وائس آف امریکہ سے اتوار کو گفتگو میں وفاقی وزارت داخلہ کے ترجمان عمر حامد خان کا کہنا تھا کہ غیر ملکی شہریوں اور سفارتی تنصیبات کی سیکورٹی کے لیے تمام تر اقدامات کیے گئے ہیں۔
’’ہمیں جو اطلاع ملتی ہے وہ پراسسنگ کرکے صوبوں کو بھیج دی جاتی ہے۔ تمام صوبوں کو ہدایت دی گئی ہے کہ وہ اپنی جیلوں کی سیکورٹی کو بڑھائیں اور انہیں افرادی قوت بھی فراہم کی گئی ہے کہ وہ اپنے علاقوں میں حساس تنصیبات کی سکیورٹی بہتر بناسکیں۔‘‘
گزشتہ ہفتے صوبہ خیبرپختونخواہ کے شہر ڈیرہ اسماعیل خان میں القاعدہ سے منسلک پاکستانی طالبان نے ایک جیل پر حملہ کیا جس میں 200 سے زائد قیدی فرار ہوئے۔ جن میں سرکاری حکام کے مطابق کئی انتہائی خطرناک شدت پسند بھی تھے۔
وزارت داخلہ کے ترجمان کا کہنا تھا کہ اس واقعے کی وجوہات اور اس میں ملوث افراد کے بارے میں جاننے کے لیے تحقیقات کی جارہی ہیں۔
’’ہم نے اس واقعے کی پیشگی اطلاع دی تھی لیکن میرے خیال میں انہوں نے اس کی کوئی تیاری نہیں کی تھی جس وجہ سے اس پر قابو نہیں پایا جاسکا۔ شاید بہت سارے لوگ (حملہ آور) تھے یا جو بھی ہوا۔ اب انکوائری ہوگی تو پتہ چلے گا۔‘‘
حکومت میں آنے کے فوراً بعد وزیراعظم نواز شریف اور ان کے وزارء نے گزشتہ ایک دہائی سے جاری شدت پسندی سے موثر انداز میں نمٹنے کے لیے ایک متفقہ لائحہ عمل تیار کرنے کا اعلان کیا تھا تاہم اس بارے میں گزشتہ ماہ ہونے والے سیاسی قائدین کے اجلاس کو موخر کردیا گیا۔
وزارت داخلہ کی طرف سے قومی سکیورٹی پالیسی سے متعلق ترجمان عمر حامد خان کا کہنا ہے کہ آئندہ چند ہفتوں میں اس کا اعلان کردیا جائےگا۔
’’پالیسی کوئی ایسی چیز نہیں کہ بٹن دبانے سے باہر آجائے۔ اس میں تیس سے چالیس فریق ہیں جن سے بات کرنی ہے۔ ان میں صوبے، محکمے اور خفیہ ادارے شامل ہیں۔ ہم اس میں خفیہ معلومات کے تبادلے کا نظام متعارف کروائیں گے اور تمام خفیہ اداروں کو اس پالیسی پر کاربند رہنے کے لیے رضا مند کروائیں گے۔‘‘
وزارت داخلہ کے ترجمان کے مطابق شدت پسندوں کے خلاف جنگ میں بھرپور کامیابی نا ہونے کا سبب قانون نافذ کرنے والے اداروں کے پاس وسائل کی قلت بھی ہے۔
دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اب تک 40 ہزار سے زائد پاکستانی ہلاک اور ملک کو اربوں روپے کا نقصان ہوچکا ہے۔
انٹرپول نے اپنے 190 رکن ممالک کو متنبہ کیا کہ لیبیا، عراق اور پاکستان میں جیلوں پر حملے القاعدہ کی مربوط کارروائیاں ہوسکتی ہیں۔
امریکی حکومت کی طرف سے بھی اپنے سفارت اور قونصل خانوں پر القاعدہ کے حملوں کے خدشے کے پیش نظر اپنے شہریوں کو رواں ماہ سفری انتباہ جاری کیا گیا جبکہ برطانیہ اور فرانس نے یمن میں اپنے سفارت خانے اتوار کو بند کرنے کا اعلان کر رکھا ہے۔
وائس آف امریکہ سے اتوار کو گفتگو میں وفاقی وزارت داخلہ کے ترجمان عمر حامد خان کا کہنا تھا کہ غیر ملکی شہریوں اور سفارتی تنصیبات کی سیکورٹی کے لیے تمام تر اقدامات کیے گئے ہیں۔
’’ہمیں جو اطلاع ملتی ہے وہ پراسسنگ کرکے صوبوں کو بھیج دی جاتی ہے۔ تمام صوبوں کو ہدایت دی گئی ہے کہ وہ اپنی جیلوں کی سیکورٹی کو بڑھائیں اور انہیں افرادی قوت بھی فراہم کی گئی ہے کہ وہ اپنے علاقوں میں حساس تنصیبات کی سکیورٹی بہتر بناسکیں۔‘‘
گزشتہ ہفتے صوبہ خیبرپختونخواہ کے شہر ڈیرہ اسماعیل خان میں القاعدہ سے منسلک پاکستانی طالبان نے ایک جیل پر حملہ کیا جس میں 200 سے زائد قیدی فرار ہوئے۔ جن میں سرکاری حکام کے مطابق کئی انتہائی خطرناک شدت پسند بھی تھے۔
وزارت داخلہ کے ترجمان کا کہنا تھا کہ اس واقعے کی وجوہات اور اس میں ملوث افراد کے بارے میں جاننے کے لیے تحقیقات کی جارہی ہیں۔
’’ہم نے اس واقعے کی پیشگی اطلاع دی تھی لیکن میرے خیال میں انہوں نے اس کی کوئی تیاری نہیں کی تھی جس وجہ سے اس پر قابو نہیں پایا جاسکا۔ شاید بہت سارے لوگ (حملہ آور) تھے یا جو بھی ہوا۔ اب انکوائری ہوگی تو پتہ چلے گا۔‘‘
حکومت میں آنے کے فوراً بعد وزیراعظم نواز شریف اور ان کے وزارء نے گزشتہ ایک دہائی سے جاری شدت پسندی سے موثر انداز میں نمٹنے کے لیے ایک متفقہ لائحہ عمل تیار کرنے کا اعلان کیا تھا تاہم اس بارے میں گزشتہ ماہ ہونے والے سیاسی قائدین کے اجلاس کو موخر کردیا گیا۔
وزارت داخلہ کی طرف سے قومی سکیورٹی پالیسی سے متعلق ترجمان عمر حامد خان کا کہنا ہے کہ آئندہ چند ہفتوں میں اس کا اعلان کردیا جائےگا۔
’’پالیسی کوئی ایسی چیز نہیں کہ بٹن دبانے سے باہر آجائے۔ اس میں تیس سے چالیس فریق ہیں جن سے بات کرنی ہے۔ ان میں صوبے، محکمے اور خفیہ ادارے شامل ہیں۔ ہم اس میں خفیہ معلومات کے تبادلے کا نظام متعارف کروائیں گے اور تمام خفیہ اداروں کو اس پالیسی پر کاربند رہنے کے لیے رضا مند کروائیں گے۔‘‘
وزارت داخلہ کے ترجمان کے مطابق شدت پسندوں کے خلاف جنگ میں بھرپور کامیابی نا ہونے کا سبب قانون نافذ کرنے والے اداروں کے پاس وسائل کی قلت بھی ہے۔
دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اب تک 40 ہزار سے زائد پاکستانی ہلاک اور ملک کو اربوں روپے کا نقصان ہوچکا ہے۔