’ڈرون حملے بند کرنے کی آئی ایس آئی کی درخواست‘

’ڈرون حملے بند کرنے کی آئی ایس آئی کی درخواست‘

پاکستان کے ایک انگریزی روزنامے نے دعویٰ کیا ہے کہ ملک کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل احمد شجاع پاشا نے امریکہ سے کہا ہے کہ وہ ڈرون حملے بند کردے۔

ایکسپریس ٹریبون نے اتوار کو شائع کی گئی اپنی خبر میں کہا ہے کہ جنرل پاشا نے یہ درخواست ہفتہ کو امریکی سی آئی اے کے ڈپٹی ڈائریکٹرمائیکل مورل سے ملاقات میں کرتے ہوئے کہا کہ”اگر آپ نے ڈرون حملوں کو روکنے کے لیے کوئی حکمت عملی وضع نہ کی تو ہم ان کے خلاف کارروائی پر مجبور ہو جائیں گے“۔

حکومت پاکستان ان ڈرون حملوں کی مذمت کرتی ہے اس موقف کا اظہار کرتی آئی ہے کہ یہ کارروائیاں انسداد دہشت گردی کی کوششوں کے لیے نقصان دہ ، لوگو ں کو مشتعل اور انتہا پسندی کو ہوا دیتی ہیں۔

لیکن وکی لیکس نے انکشاف کیا ہے کہ اُس کے ہاتھ لگنے والے خفیہ امریکی سفارتی مراسلوں کے مطابق نہ صرف پاکستان کی سیاسی بلکہ فوجی قیادت بھی درپردہ ان ڈرون حملوں کی حامی اور ان کی افادیت کی معترف ہے۔ جنوری 2008ء میں ایک اعلیٰ امریکی فوجی کمانڈر سے ملاقات میں پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی نے جنوبی وزیرستان میں اپنی افواج کی کارروائیوں کے دوران امریکی ڈرون طیاروں کی مدد مانگی تھی۔ تاہم پاکستانی فوج کے ترجمان نے وکی لیکس کے ان انکشاف کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ کسی بھی مرحلے پرامریکہ سے ڈرون کی مدد نہیں مانگی تھی۔

اخبار ایکسپریس ٹریبون کے مطابق سی آئی کے ڈپٹی ڈائریکٹر نے عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائیوں کی نگرانی کرنے والے آئی ایس آئی کے افسران اور ادارے کی انسداد دہشت گردی ڈویژن کے ارکان سے بھی ملاقات کی۔” طرفین کے درمیان بات چیت میں ڈرون حملوں کو روکنے اورعسکریت پسندوں کے خلاف پاک امریکہ مشترکہ کارروائیاں کرنے سے متعلق امور زیر بحث آئے ۔“

اخبار کی خبر کے مطابق سی آئی اے کے ڈپٹی ڈائریکٹر نے پاکستانی میزبانوں سے گفتگو میں یہ جاننے کی کوشش بھی کی کہ آیا اس بات کا پتا لگایا جاسکا ہے کہ اتنے طویل عرصے تک ایبٹ آباد میں کسی کو خبر ہوئے بغیر اُسامہ بن لادن ایبٹ آباد میں کیسے چھپنے میں کامیاب ہوا اور اس کام میں اُس کی مدد کس نے کی۔

اطلاعات کے مطابق آئی ایس آئی کے عہدے داروں نے امریکہ سے اُن معلومات ودستاویزات تک رسائی کی درخواست بھی کی جو اُسامہ بن لادن کی پناہ گاہ کے خلاف کارروائی کے دوران امریکی کمانڈوز کے ہاتھ لگیں۔

دارالحکومت سے 80 کلومیٹر دور ایک فوجی چھاؤنی والے علاقے میں اُسامہ کی موجودگی امریکہ اور پاکستان کے تعلقات میں کشیدگی کی وجہ بن گئی ہے اور پاکستانی حکومت اس تمام واقعہ سے متعلق اُٹھنے والے سوالات اور شکوک وشبہات پر شدید دباؤ میں ہے۔