اسلام آباد کے سیکٹر ایف ایٹ مرکز میں واقع کچہری کمپلیکس کو جب نشانہ بنایا گیا تو وہاں سینکڑوں کی تعداد میں لوگ موجود تھے۔ ڈاکٹروں کے مطابق 25 زخمیوں میں سے بعض کی حالت تشویشناک ہے۔
اسلام آباد —
پاکستان کے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی کچہری میں مسلح افراد کے حملے میں ایڈیشنل سیشن جج رفاقت اعوان سمیت 11 افراد ہلاک اور 25 زخمی ہو گئے۔
پولیس کے مطابق پیر کی صبح جب اسلام آباد کے سیکٹر ایف ایٹ مرکز میں واقع کچہری کمپلیکس کو نشانہ بنایا گیا تو وہاں سینکٹروں کی تعداد میں لوگ موجود تھے۔
عموماً صبح کے وقت وکلاء، سائلین اور کچہری کے احاطے ہی میں قائم دوکانوں پر کافی رش ہوتا ہے۔
اسلام آباد پولیس کے انسپکٹر جنرل سکندر حیات نے کچہری پر حملے کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ’’دو خودکش حملہ آوروں‘‘ نے اپنے جسم سے بندھے بارودی مواد میں دھماکا کر دیا۔
وفاقی وزیر داخلہ چودہدی نثار نے قومی اسمبلی میں ایک بیان میں کہا کہ اسلام آباد کچہری میں حملے میں ملوث عناصر تک پہنچنے کے لیے ہر ممکن اقدامات کیے جائیں گے۔
’’ہم ان لوگوں کا پیچھا کریں گے، اُن کو پکڑیں گے اور کٹہرے میں لائیں۔ ہماری انٹیلی جنس ایجنسیاں پر اعتماد ہیں کہ ان لوگوں کو پکڑیں گے۔‘‘
پولیس اور عینی شاہدین کے مطابق حملہ آور خود کار اسلحے سے لیس تھے اور اُنھوں نے کچہری میں وکلاء کے چیمبرز فائرنگ کی اور دستی بم بھی پھینکے۔
اسلام آباد کے سب سے بڑے سرکاری اسپتال پاکستان انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز ’پمز‘ کی ترجمان عائشہ عیسانی نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو میں کہا کہ ہلاک و زخمی ہونے والوں میں سے بیشتر کو سینے میں گولیاں لگیں اور کم از کم پانچ زخمی افراد کی حالت تشویشناک ہے۔
پمز اسپتال کے ہی ایک اور ڈاکٹر الطاف نے میڈیا کے نمائندوں کو بتایا کہ ہلاک ہونے والے گیارہ افراد میں ایک خاتون وکیل، ایک جج اور پانچ وکلاء بھی شامل ہیں۔
حملے کے بعد پولیس کے خصوصی دستوں نے ایف ایٹ سیکٹر میں ’کچہری‘ کمپلیکس کو گھیرے میں لے کر تلاشی کا کام شروع کر دیا۔
اسلام آباد کی ضلعی کچہری میں حملے کے بعد ہر طرف شیشے بکھرے ہوئے نظر آئے۔
کچہری پر حملے کے عینی شاہدین نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ نوجوان حملہ آور انتہائی تربیت یافتہ معلوم ہوتے تھے۔
اُدھر چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی نے کچہری پر حملے کا از خود نوٹس لیتے ہوئے اسلام آباد پولیس کے انسپکٹر جنرل اور سیکرٹری داخلہ کو منگل کے روز عدالت عظمٰی میں طلب کیا ہے۔
چیف جسٹس نے اس حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ’’حصول انصاف کا سفر جاری رہے گا۔‘‘
وکلاء کی نمائندہ تنظیم پاکستان بار کونسل نے بھی اس حملے کی مذمت کرتے ہوئے عدالتی کارروائی کے بائیکاٹ کا اعلان کیا ہے۔
اسلام آباد کچہری پر حملے کی کسی نے ذمہ داری قبول نہیں کی ہے اور طالبان کے ترجمان شاہد اللہ شاہد نے میڈیا کے نام اپنے پیغام میں کہا کہ وہ اپنے سربراہ کی جانب سے جنگ بندی کے اعلان پر قائم ہیں۔
کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے ہفتہ کے روز حکومت سے مذاکرات کی بحالی کے لیے ایک ماہ کی جنگ بندی کا اعلان کیا تھا، جس کے جواب میں وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے ایک بیان میں شدت پسندوں کے ٹھکانوں کے خلاف فضائی کارروائیاں معطل کرنے کا اعلان کیا۔
پولیس کے مطابق پیر کی صبح جب اسلام آباد کے سیکٹر ایف ایٹ مرکز میں واقع کچہری کمپلیکس کو نشانہ بنایا گیا تو وہاں سینکٹروں کی تعداد میں لوگ موجود تھے۔
عموماً صبح کے وقت وکلاء، سائلین اور کچہری کے احاطے ہی میں قائم دوکانوں پر کافی رش ہوتا ہے۔
اسلام آباد پولیس کے انسپکٹر جنرل سکندر حیات نے کچہری پر حملے کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ’’دو خودکش حملہ آوروں‘‘ نے اپنے جسم سے بندھے بارودی مواد میں دھماکا کر دیا۔
وفاقی وزیر داخلہ چودہدی نثار نے قومی اسمبلی میں ایک بیان میں کہا کہ اسلام آباد کچہری میں حملے میں ملوث عناصر تک پہنچنے کے لیے ہر ممکن اقدامات کیے جائیں گے۔
’’ہم ان لوگوں کا پیچھا کریں گے، اُن کو پکڑیں گے اور کٹہرے میں لائیں۔ ہماری انٹیلی جنس ایجنسیاں پر اعتماد ہیں کہ ان لوگوں کو پکڑیں گے۔‘‘
پولیس اور عینی شاہدین کے مطابق حملہ آور خود کار اسلحے سے لیس تھے اور اُنھوں نے کچہری میں وکلاء کے چیمبرز فائرنگ کی اور دستی بم بھی پھینکے۔
اسلام آباد کے سب سے بڑے سرکاری اسپتال پاکستان انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز ’پمز‘ کی ترجمان عائشہ عیسانی نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو میں کہا کہ ہلاک و زخمی ہونے والوں میں سے بیشتر کو سینے میں گولیاں لگیں اور کم از کم پانچ زخمی افراد کی حالت تشویشناک ہے۔
پمز اسپتال کے ہی ایک اور ڈاکٹر الطاف نے میڈیا کے نمائندوں کو بتایا کہ ہلاک ہونے والے گیارہ افراد میں ایک خاتون وکیل، ایک جج اور پانچ وکلاء بھی شامل ہیں۔
حملے کے بعد پولیس کے خصوصی دستوں نے ایف ایٹ سیکٹر میں ’کچہری‘ کمپلیکس کو گھیرے میں لے کر تلاشی کا کام شروع کر دیا۔
اسلام آباد کی ضلعی کچہری میں حملے کے بعد ہر طرف شیشے بکھرے ہوئے نظر آئے۔
کچہری پر حملے کے عینی شاہدین نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ نوجوان حملہ آور انتہائی تربیت یافتہ معلوم ہوتے تھے۔
Your browser doesn’t support HTML5
اُدھر چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی نے کچہری پر حملے کا از خود نوٹس لیتے ہوئے اسلام آباد پولیس کے انسپکٹر جنرل اور سیکرٹری داخلہ کو منگل کے روز عدالت عظمٰی میں طلب کیا ہے۔
چیف جسٹس نے اس حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ’’حصول انصاف کا سفر جاری رہے گا۔‘‘
وکلاء کی نمائندہ تنظیم پاکستان بار کونسل نے بھی اس حملے کی مذمت کرتے ہوئے عدالتی کارروائی کے بائیکاٹ کا اعلان کیا ہے۔
اسلام آباد کچہری پر حملے کی کسی نے ذمہ داری قبول نہیں کی ہے اور طالبان کے ترجمان شاہد اللہ شاہد نے میڈیا کے نام اپنے پیغام میں کہا کہ وہ اپنے سربراہ کی جانب سے جنگ بندی کے اعلان پر قائم ہیں۔
کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے ہفتہ کے روز حکومت سے مذاکرات کی بحالی کے لیے ایک ماہ کی جنگ بندی کا اعلان کیا تھا، جس کے جواب میں وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے ایک بیان میں شدت پسندوں کے ٹھکانوں کے خلاف فضائی کارروائیاں معطل کرنے کا اعلان کیا۔