پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کی اپیل پر ہفتے کو منائے جانے والے یوم سیاہ کے دوران ملک بھر میں صحافتی تنظیموں نے ریلیاں منعقد کیں اور مطالبہ کیا کہ پنجاب اسمبلی جمعے کو منظور ہونے والی وہ قرارداد واپس لے جس میں میڈیا کو ہدف تنقید بنایا گیا ہے۔
ان ریلیوں میں صحافیوں کے ہمراہ صحافیوں کے ہمراہ وکلاء،سول سوسائٹی اور انسانی حقوق کے سرگرم کارکن بھی شریک تھے۔
پنجاب کے وزیر قانون رانا ثناء اللہ نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ پانچ صحافیوں اور پانچ صوبائی اسمبلیوں کے ارکان پر مشتمل ایک کمیٹی قائم کردی گئی ہے اور ان کے بقول جلد اس مسئلے کو حل کرلے گی۔
دریں اثناء پنجاب کے وزیر اعلیٰ شہباز شریف نے بھی رحیم یار خان میں ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے ملک میں جمہوریت لانے میں میڈیا کے کردار کو سراہنے کے بعد اس امید کا اظہار کیا کہ یہ معاملہ جلد حل کرلیا جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ منظور ہونے والی قرارداد ان کی جماعت کی پالیسی لائن نہیں تھی۔
جمعے کو پنجاب اسمبلی میں میڈیا مخالف قرارداد منظور ہونے سے پہلے دوروز تک اراکین جعلی ڈگریوں کی ذرائع ابلاغ پر جس انداز میں کوریج ہورہی ہے اس پر ناراضگی کا اظہار کرتے رہے جب کہ میڈیا کا یہ موقف رہا کہ جب آئے روز جعلی ڈگریوں کے کیس سامنے آرہے ہیں تو میڈیا کواس باے میں خبریں دینے پر کیوں برا بھلا کہا جارہا ہے۔
واضح رہے کہ عدالت عظمیٰ کی ہدایت پر ہائر ایجوکیشن کمیشن اور الیکشن کمیشن 800سے زائد ارکان اسمبلی کی تعلیمی اسناد کی پڑتال کروا رہا ہے اور اس عمل کے دوران جو صورتحال سامنے آرہی ہے اس کی روشنی میں خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ ان میں سے 140ارکان کی ڈگریاں جعلی ہوسکتی ہیں ۔ ان میں سے بیشتر کا تعلق مسلم لیگ ن سے بتایا جاتا ہے۔
ادھر مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف نے لندن میں ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ اُن کی جماعت جعلی ڈگریاں رکھنے والے اراکین اسمبلی کے خلاف ہے اور پنجاب اسمبلی سے میڈیا مخالف مذمتی قرارداد کی منظور ی بدنیتی پر مبنی ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ میڈیا نے عدلیہ کی بحالی سمیت جمہوریت کی بحالی کے لیے قربانیاں دی ہیں ۔
نو از شریف نے کہا کہ اُن کی جماعت کے رکن صوبائی اسمبلی ثناء اللہ مستی خیل جنھوں نے میڈیا کے خلاف مذمتی قرارداد اسمبلی میں پیش کی تھی اُنھیں پارٹی سے باہر نکال دیاجانا چاہیئے ۔