پاکستان میں اکثر عدلیہ پر نکتہ چینی کی جاتی ہے۔ اس کے فیصلوں کو متنازعہ بنانے کی کوشش کی جاتی ہے اور اعلیٰ عدالتوں کے ججوں کے تقرر کے طریقہ کار پر بھی عدم اطمنان کا اظہار کیا جاتا ہے۔ حقیقت کیا ہے؟ یہ جاننے کے لیے بات کرتے ہیں کچھ قانونی ماہرین سے۔
جسٹس وجیہہ الدین احمد۔ پاکستان سپریم کورٹ کے سینئیر جج رہے ہیں۔ پاکستان میں عدلیہ پر نکتہ چینی اور اعلیٰ عدالتوں کے لئے ججوں کے تقرر کے طریقہ کار پر وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ درست ہے کہ ماضی میں اعلیٰ عدالتوں کے ججوں کی تقرری میں بہت زیادہ سیاسی مداخلت ہوتی تھی اور اسی سبب سے یہ سوچا گیا کہ فرد واحد یعنی ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی جانب سےاعلیٰ عدالتوں کے ججوں کے تقرر کی بجائے ایسا نظام وضع کیا جائے، اور ایسا ادارہ قائم کیا جائے، جس میں قانون سے متعلق ہر شعبے کی نمائندگی ہو، اور کسی جج کی نامزدگی پورے عمل سے گزر کر صدر مملکت تک پہنچے، جو اس کا تقرر کریں۔
اس مقصد کے لئے آئین میں ترمیم کی گئ۔ جس کے نتیجے میں جوڈیشیل کمیشن آف پاکستان اور پارلیمانی کمیٹی وغیرہ بنائی گئیں۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ ان ججوں کی تقرری کا یہ بہترین نظام ہے۔ جس میں بار، عدلیہ اور حکومت کے کوئٰی درجن بھر اہل ترین افراد۔ کسی کو جج مقرر کرنے کے لئے تفصیلی تبادلہ خیال کرتے ہیں اور کسی دباؤ میں آئے بغیر سب کے خیال میں یا اکثریت کے خیال میں جوبہترین امیدوار ہے اسے نامزد کر دیا جاتا ہے اور وزیر اعظم کی سفارش پر صدر تقرر کر دیتا ہے۔
اس سوال کے جواب میں کہ پھر اعلیٰ عدلیہ پر ملک میں اتنی تنقید کا سبب کیا ہے۔ جسٹس وجیہہ الدین نے کہا کہ ہمارے ملک میں سیاست ہر چیز پر سبقت حاصل کر چکی ہے۔ اور سیاست بھی ایک کرپٹ نظام ہے۔ اور اس نظام کو چلانے والے اپنے مقاصد کے حصول کے لئے عدلیہ اور اس کے فیصلوں کو ہدف بناتے ہیں۔ اور کسی نہ کسی اعتبار سے بعض ججوں کا بھی کوئی نہ کوئی ایسا رول ہوتا ہے جو انہیں یا ان کے فیصلوں کو متنازعہ بنا دے۔ اس لئے ان کے فیصلوں کو سیاست کی نظر کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ دوسری جانب ہمارے جج صاحبان بد قسمتی سے عدالتوں کے اندر باتیں بہت کرتے ہیں۔ حالانکہ ججوں کو بولنا کم اور سننا زیادہ چاہئیے۔ نتیجہ یہ کہ جب آپ عدالتوں میں زیادہ بولیں گے اور اس کی ہیڈ لائینز بنیں گی۔ تو انہیں ایک یا دوسرا فریق اپنے مقصد کے لئے استعمال تو کرے گا۔
اس سوال کے جواب میں کہ ورلڈ جسٹس پروجیکٹ جیسے بین الاقوامی اداروں کی ان ملکوں کی فہرست میں، جہاں صحیح معنوں میں انصاف دیا جاتا ہے۔ پاکستان اتنا نیچے کیوں ہے۔ انہوں نے کہا کہ بظاہر ایک وجہ تو یہ ہے کہ موجودہ حالات میں انصاف فراہم کرنا بہت مشکل کام ہے۔ ججوں کی بہت کمی اور مقدمات کی بہت زیادتی ہے۔ اس لئے انصاف ہوتا ہوا نظر نہیں آتا اور دنیا یہ تاثر لیتی ہے کے لوگوں کو انصاف نہیں مل رہا۔ دوسرا وہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان چونکہ ایک اسلامی ملک ہے اور اسلامو فوبیا کے حوالے سے پاکستان سمیت دوسرے اسلامی ملکوں کے خلاف بھی ایک مخصوص نوعیت کا تعصب پایا جاتا ہے۔ جو اسے اس قسم کی رینکنگ دینے کا سبب بنتا ہے۔
قاضی مبین ایک ماہر قانوں اور پاکستان سپریم کورٹ کے ایک سینئیر وکیل ہیں۔ اس حوالے سے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ بد قسمتی ہے کہ پاکستانی عوام کی نظر میں عدلیہ کا تاثر اچھا نہیں ہے۔ اور اسی لئے عدلیہ پر عام آدمی کا اعتماد باقی نہیں رہا ہے۔ اسی لئے لوگ قانوں اپنے ہاتھ میں لینے کی کوشش کرتے ہیں
انہوں نے کہا کہ لبرل اور کنزرویٹو جج تو ساری دنیا میں ہوتے ہیں لیکن وہ حکومت کے حامی یا اپوزیشن کے حامی نہیں ہوتے بلکہ وہ قانون کی آزاد خیال یا قدامت پسندانہ توضیح کرتے ہیں۔ جب کہ ہاکستان میں بعض ججوں کے بارے میں حکومت کے یا اپوزیشن کے حامی ہونے کا تاثر پیدا ہوتا ہے اور وہیں سے خرابی آنا شروع ہو جاتی ہے۔ اور لوگ ان کے فیصلوں کو قانون کی بنیاد پر کئے جانے والے فیصلوں کی بجائے ان کی ذاتی پسند اور ناپسند پر مبنی فیصلے قرار دے کر ان پر تنقید شروع کر دیتے ہیں۔ اس لئے ہمارے عدالتی نظام میں تبدیلیوں کی اشد ضرورت ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ آئینی ترامیم کے بعد ججوں کی تقرری کے طریقہ کار میں آنے والی تبدیلیوں سے نظام میں کچھ بہتری آئی ہے۔ لیکن بڑا مسئلہ یہ ہے کہ جج آخرکار اسی عدالتی نظام میں شامل لوگوں میں سے لئے جانے ہیں۔ جن کی قانونی تعلیم کا نظام تو چلئے مان لیتے ہیں کہ ٹھیک ہے، لیکن کیا بقیہ دنیا کی طرح ہمارے ہاں مسلسل پیشہ ورانہ تربیت کا سلسلہ ہیے جہاں ان لوگوں کی تربیت کا عمل جاری رہے جنہیں آئندہ جج بننا ہے، یا جو جج بنے ہوئے ہیں۔ عدلیہ کی بہتر کارکردگی کے لئے اس نظام کا قائم ہونا ضروری ہے۔ انہوں نے زیریں عدالتوں کے لئے مجسٹریٹوں، سول اور سیشن ججوں اور پھر ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے ججوں کی تقرری کے نظام پر تفصیل سے روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ عدلیہ کو عالمی معیار کے مطابق لانے کے لئے نظام میں اصلاح کی بہت گنجائش ہے۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ انصاف سے متعلق عالمی اداروں میں پاکستان کی رینکنگ اتنے نیچے کیوں ہے تو انہوں نے کہا کہ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ ججوں کی تعداد بہت کم ہے اور مقدمات بہت زیادہ ہیں۔ اس لئے لوگوں کو اس طرح انصاف نہیں ملتا جس طرح ملنا چاہئے۔ دوسری سب سے بڑی وجہ ہمارے ہاں ججوں کے اپنے احتساب کا فقدان ہے۔ اگر کسی جج کی غلط کاری ثابت ہو جائے تو یہ نہیں کہ تم استعفیٰ دے کر اور ساری مراعات لے کر گھر چلے جاؤ۔ بلکہ اسے نشان عبرت بنا دیا جانا چاہئیے تاکہ دنیا آپ کے نظام انصاف پر یقین لے آئے۔ اس کے علاوہ جج جو فیصلے دیتے ہیں ان کے آڈٹ کا بھی ایک نظام ہونا چاہئیے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ججوں کے فیصلوں کو متنازعہ بنانے اور ان پر تنقید کی بنیاد فراہم کرنے میں سیاست کا بڑا ہاتھ ہے۔ جس فریق کے خلاف فیصلہ آتا ہے وہ میڈیا اور سوشل میڈیا کے ذریعے اس فیصلے کو غلط قرار دیتا ہے اور یوں فیصلے کو اور جج کو متنازعہ بنانے کی کوشش کرتا ہے۔
جسٹس وجیہہ الدین کی طرح قاضی مبین کا بھی کہنا تھا کہ عدالتوں میں جج صاحبان بہت زیادہ بولتے ہیں۔ جس سے لوگ ان کے مائینڈ سیٹ کے بارے میں صحیح یا غلط تاثر لیتے ہیں۔ جب کہ منصف کو کم اور اس کے فیصلوں کو زیادہ بولنا چاہئیے۔