کمیٹی کے رکن اور حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر محمد رفیق راجوانہ نے ہفتہ کو وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ سپریم کورٹ کے ایک فیصلے سے ججوں کی تقرری سے متعلق پارلیمانی کمیٹی کا کردار ایک ’’ڈاک خانے‘‘ سا بن گیا ہے۔
اسلام آباد —
اعلیٰ عدلیہ میں ججوں کی تقرری کا عمل گزشتہ سالوں میں تنازع کا شکار رہا اور نا صرف قانون سازوں بلکہ قومی سطح پر وکلاء کی نمائندہ تنظیموں کی طرف سے اس پر گاہے بگاہے سنگین اعتراضات اٹھائے گئے۔
انہی اعتراضات کو مدنظر رکھتے سابق وفاقی وزیر قانون فاروق نائیک کی سربراہی میں پارلیمان کی ایک تین رکنی ذیلی کمیٹی تشکیل دی گئی ہے جو کہ وکلاء، سابق ججوں اور نامور ماہر قانون سے مشاورت سے ممکنہ آئینی ترمیم کے ذریعے ججوں کی تقرری میں پارلیمانی کمیٹی اور وکلاء کے کردار میں اضافے کی سفارشات پیش کرے گی۔
کمیٹی کے رکن اور حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر محمد رفیق راجوانہ نے ہفتہ کو وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ سپریم کورٹ کے ایک فیصلے سے ججوں کی تقرری سے متعلق پارلیمانی کمیٹی کا کردار ایک ’’ڈاک خانے‘‘ سا بن گیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ کمیٹی ان کے پاس اختیار بھی نہیں کہ وہ عدالتی کمیشن کی طرف سے پیش کردہ امیدواروں کی اہلیت اور پیشہ وارانہ معیار پر سوال اٹھائے۔
’’جب آئین میں یہ دفعہ آگئی ہے کہ جوڈیشل کمیشن کی سفارشات پارلیمانی کمیٹی میں آئیں گی تو اس کے بعد کمیٹی کو موثر انداز میں اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔ یقیناً پارلیمنٹ بھی سپریم ہے۔ اس میں جتنا بھی ان امیدواروں کی چھان بین کریں گے، تو مزید بہتر ہوجائے گا۔‘‘
نواز لیگ کے قانون ساز کا کہنا تھا کہ اس کا مقصد عدالتی کمیشن کے متوازی کوئی ڈھانچہ کھڑا کرنا نہیں بلکہ پورے عمل کو مضبوط بنانا ہے جس سے ملک میں عدالتی نظام میں بہتری ممکن ہے۔
پارلیمانی کمیٹی کی طرف سے یہ اعلان ایک ایسے وقت سامنے آیا جب عدالت عظمیٰ کے نئے چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی نے گزشتہ ماہ ہی فل کورٹ سماعت میں زور دیا کہ تمام ریاستی اداروں کو اپنی آئینی حدود کے اندر رہ کر کام کرنا ہوگا۔
حال ہی میں سبکدوش ہونے والے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں عدالتی کمیشن کے تحت ججوں کی تقرری کے عمل پر وکلاء کی سب سے بڑی نمائندہ تنظیم پاکستان بار کونسل نے احتجاج کرتے ہوئے کمیشن کے اجلاس سے بائیکاٹ بھی کیے۔
کمیشن میں بار کونسل کے نمائندے اور سپریم کورٹ بار ایسویشن کے سابق صدر یاسین آزاد کا کہنا تھا کہ بار کونسل کی طرف سے کمیشن کے قواعد و ضوابط میں ترمیم کو ماضی مٰں نظر انداز کیا گیا۔
’’آئین میں ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کو یہ اختیار نہیں کہ صرف وہ کسی امیدوار کا نام تجویز کرے۔ یہ جب کمیشن نے رولز بنائے تو پھر یہ اختیار اپنے پاس رکھ لیے۔ میرے خیال میں تو تین نام ہونے چاہیئں پھر ان میں سے کمیشن سلیکٹ کرے کہ کون اہل اور کون نہیں۔‘‘
عدالتی کمیشن کے اراکین کی اکثریت حاضر سروس ججوں کی ہے۔ قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ انتہا پسندی، دہشت گردی اور استحصال سے موثر انداز نمٹنے کے لیے پاکستان کے عدالتی نظام میں بڑے پیمانے پر اصلاحات نا گزیر ہو چکی ہیں۔
انہی اعتراضات کو مدنظر رکھتے سابق وفاقی وزیر قانون فاروق نائیک کی سربراہی میں پارلیمان کی ایک تین رکنی ذیلی کمیٹی تشکیل دی گئی ہے جو کہ وکلاء، سابق ججوں اور نامور ماہر قانون سے مشاورت سے ممکنہ آئینی ترمیم کے ذریعے ججوں کی تقرری میں پارلیمانی کمیٹی اور وکلاء کے کردار میں اضافے کی سفارشات پیش کرے گی۔
کمیٹی کے رکن اور حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر محمد رفیق راجوانہ نے ہفتہ کو وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ سپریم کورٹ کے ایک فیصلے سے ججوں کی تقرری سے متعلق پارلیمانی کمیٹی کا کردار ایک ’’ڈاک خانے‘‘ سا بن گیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ کمیٹی ان کے پاس اختیار بھی نہیں کہ وہ عدالتی کمیشن کی طرف سے پیش کردہ امیدواروں کی اہلیت اور پیشہ وارانہ معیار پر سوال اٹھائے۔
’’جب آئین میں یہ دفعہ آگئی ہے کہ جوڈیشل کمیشن کی سفارشات پارلیمانی کمیٹی میں آئیں گی تو اس کے بعد کمیٹی کو موثر انداز میں اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔ یقیناً پارلیمنٹ بھی سپریم ہے۔ اس میں جتنا بھی ان امیدواروں کی چھان بین کریں گے، تو مزید بہتر ہوجائے گا۔‘‘
نواز لیگ کے قانون ساز کا کہنا تھا کہ اس کا مقصد عدالتی کمیشن کے متوازی کوئی ڈھانچہ کھڑا کرنا نہیں بلکہ پورے عمل کو مضبوط بنانا ہے جس سے ملک میں عدالتی نظام میں بہتری ممکن ہے۔
حال ہی میں سبکدوش ہونے والے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں عدالتی کمیشن کے تحت ججوں کی تقرری کے عمل پر وکلاء کی سب سے بڑی نمائندہ تنظیم پاکستان بار کونسل نے احتجاج کرتے ہوئے کمیشن کے اجلاس سے بائیکاٹ بھی کیے۔
کمیشن میں بار کونسل کے نمائندے اور سپریم کورٹ بار ایسویشن کے سابق صدر یاسین آزاد کا کہنا تھا کہ بار کونسل کی طرف سے کمیشن کے قواعد و ضوابط میں ترمیم کو ماضی مٰں نظر انداز کیا گیا۔
’’آئین میں ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کو یہ اختیار نہیں کہ صرف وہ کسی امیدوار کا نام تجویز کرے۔ یہ جب کمیشن نے رولز بنائے تو پھر یہ اختیار اپنے پاس رکھ لیے۔ میرے خیال میں تو تین نام ہونے چاہیئں پھر ان میں سے کمیشن سلیکٹ کرے کہ کون اہل اور کون نہیں۔‘‘
عدالتی کمیشن کے اراکین کی اکثریت حاضر سروس ججوں کی ہے۔ قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ انتہا پسندی، دہشت گردی اور استحصال سے موثر انداز نمٹنے کے لیے پاکستان کے عدالتی نظام میں بڑے پیمانے پر اصلاحات نا گزیر ہو چکی ہیں۔