پاکستان کی سپریم کورٹ نے وزیرِاعظم یوسف رضا گیلانی کے خلاف توہینِ عدالت سے متعلق مقدمے کی سماعت مکمل کرنے کے بعد اس پر اپنا فیصلہ 26 اپریل تک محفوظ کر لیا ہے۔
عدالت عظمیٰ نے ہدایت کی ہے کہ فیصلے کے اعلان کے موقع پر وزیراعظم گیلانی بھی کمرہ عدالت میں پیش ہوں ۔
اس مقدمے میں وزیرِاعظم کے وکیل اور حکمران پیپلز پارٹی کے رہنما سینیٹر اعتزاز احسن نے سپریم کورٹ کے احاطے میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اُنھیں ’قوی اُمید‘‘ ہے کہ عدالت اُن کے موقف کو تسلیم کرے گی۔ ’’میں پُر امید ہوں کہ انشا اللہ تعالیٰ کیس (کا فیصلہ) بریت کا ہی ہوگا۔‘‘
لیکن اُنھوں نے بتایا کہ اگر سپریم کورٹ نے وزیرِاعظم کے خلاف فیصلہ سنایا تو اُنھیں سزا سے بچانے کے لیے صدرِ مملکت ان اختیارات کا استعمال نہیں کریں گے جن کے تحت کسی بھی مجرم کو معافی دی جا سکتی ہے۔
وزیرِ اعظم گیلانی کو توہینِ عدالت کا مرتکب ٹھہرائے جانے پر اُنھیں چھ ماہ کی قید ہو سکتی ہے، جب کہ اس ممکنہ پیش رفت کی پاداش میں اُن کی بحیثیت رُکن پارلیمان نا اہلی کے بارے میں قانونی حلقوں میں متضاد آراء پائی جاتی ہے۔
سینیٹر اعتزاز احسن نے کہا کہ اگر عدالت عظمیٰ اپنے فیصلے میں مسٹر گیلانی کی نااہلیت کے احکامات جاری کر بھی دے تو بھی اُن کے بقول وزیراعظم کی رکنیت کے خاتمے کا حتمی اعلان الیکشن کمیشن آف پاکستان‘ ہی کر سکتا ہے اور اس سے قبل قومی اسمبلی کی اسپیکر کو یہ معاملہ اس ادارے کو بھیجنا لازمی ہے۔
اُنھوں نے بتایا کہ پاکستان میں منتخب وزیرِ اعظم کو اس عہدے سے ہٹانے کے صرف تین آئینی طریقے ہیں، جن میں اُن کا ازخود استعفی دینا، اُن کے خلاف عدم اعتماد کی کامیاب تحریک یا اُن کو پارلیمان کی بنیادی رکنیت سے نا اہل قرار دیا جانا شامل ہے۔
منگل کو عدالتی کارروائی میں جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں قائم سات رکنی بینچ کے سامنے اٹارنی جنرل عرفان قادر نے اپنے اختتامی دلائل دیئے جس میں انھوں نے کہا کہ ملک میں اس وقت توہینِ عدالت کا کوئی قانون سرے سے موجود نہیں اس لیے وزیراعظم کواس جرم میں سزا نہیں ہو سکتی۔
عرفان قادر کا موقف تھا کہ وزیراعظم کے خلاف عدالتی کارروائی کا معاملہ لارجر بینچ کو بھیج دیا جائے۔
اس سے قبل وکیل صفائی اعتراز احسن بھی اپنے اس موقف پر ڈٹے رہے کہ صدر آصف علی زرداری کو آئین کے تحت کسی بھی طرح کی عدالتی کارروائی سے استثنیٰ حاصل ہے اور ان کے موکل نے سوئس حکام کو خط نا لکھ کر عدالت کے کسی فیصلے کی حکم عدولی نہیں کی ہے۔
مزید برآں وکیل صفائی اپنے دلائل میں یہ بھی زور دیتے رہے ہیں کہ سماعت کرنے والے جج صاحبان نے ہی وزیراعظم کو اظہار وجوہ کا نوٹس بھیجا تھا اس لیے وہ خود اس کی سماعت نہیں کر سکتے کیونکہ وہ بھی مقدمے میں فریق کی حیثیت اختیار کر چکے ہیں۔ اس لیے یہ معاملہ کسی اور بینچ کو بھیج دیا جائے۔
متنازع قومی مصالحتی آرڈیننس یا ’این آر او‘ کو کالعدم قرار دینے کے عدالتی فیصلے پر من و عن عمل درآمد سے مسلسل انکار پر از خود نوٹس لیتے سپریم کورٹ نے 19 جنوری کو وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو اظہار وجوہ کا نوٹس جاری کیا تھا اور 13 فروری کو ان پر فرد جرم عائد کر دی تھی۔
سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں این آراو کے تحت جن آٹھ ہزار سے زائد افرد کے خلاف ختم کیے گئے بدعنوانی کے مقدمات بحال کرنے کی ہدایت کی تھی ان میں صدر آصف علی زرداری بھی شامل ہیں اور حکومت کے نمائندے بشمول وزیراعظم اس موقف پر ڈٹے ہوئے ہیں کہ پاکستان کا آئین صدر مملکت کے خلاف ایسی کارروائی کی اجازت نہیں دیتا تا وقتیکہ وہ اس عہدے سے سبکدوش نہیں ہوتے۔
اعتزاز احسن نے بھی منگل کو کہا کہ انھوں نے اپنے دلائل میں یہ موقف اختیار کیا ہے کہ سوئس حکام کو خط لکھنے کا معاملہ اس وقت تک موخر کر دیا جائے جب تک آصف علی زرداری منصب صدارت پر فائز ہیں۔