پاکستان علما کونسل کے چیئرمین حافظ طاہر اشرفی نے کہا کہ رمشاء مسیح کے خلاف مقدمے کے اندراج کے وقت قانونی تقاضوں کو پورا نہیں کیا گیا۔
پاکستان کے مذہبی رہنماؤں اور مسیحی برادری کے نمائندوں نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ کمسن عیسائی لڑکی رمشا کے خلاف توہین اسلام کے الزام کی تحقیقات کے لیے ایک مشترکہ تفتیشی ٹیم تشکیل دی جائے تاکہ حقائق سامنے آ سکیں۔
پاکستان علماء کونسل کے چیئرمین حافظ طاہر اشرفی نے بین المذاہب ہم آہنگی کے لیے کام کرنے والی مسیحی برادری کی ایک تنظیم ’انٹرفیتھ لیگ‘ کے سربراہ ساجد اسحاق کے ہمراہ پیر کو وفاقی دارالحکومت میں ایک نیوز کانفرنس سے خطاب میں کہا کہ مسیحی اور مسلمان نمائندوں پر مشتمل ایک قانونی کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ رمشاء کے خلاف مقدمے کے اندارج کے وقت قانونی تقاضوں کو پورا نہیں کیا گیا۔
’’جب قانون یہ کہتا ہے کہ ایس ایچ او (پولیس انسپکٹر) سے اوپر کی سطح کا افسر تحقیقات کے بعد ایف آئی آر درج کرے گا تو پھر کیا وجہ ہوئی کہ چند لمحوں میں یہ مقدمہ درج کر لیا گیا اور اس کے بعد سے اب تک پاکستان کے نام پر جو داغ لگ رہے ہیں اس کا ذمہ دار کون ہے۔‘‘
اُنھوں نے دعویٰ کیا کہ اسلام آباد کے مضافاتی علاقے میرا جعفر میں آباد وہ میسحی خاندان جو خوف کے باعث علاقہ چھوڑ گئے تھے انھوں نے اپنے گھروں میں واپس آنا شروع کر دیا ہے۔
پاکستان علماء کونسل کے چیئرمین نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ اگر رمشاء کو عدالت رہا کر دیتی ہے تو حکومت اس لڑکی اور اس کے خاندان والوں کو مکمل تحفظ فراہم کرے۔
’’رمشا کو پاکستان ہی میں رکھا جائے…. کسی بھی پاکستانی کو عدم تحفظ کی بنا پر ملک سے باہر بھیجنا ملک کے وقار اور عزت کے منافی ہے۔‘‘
اس سے قبل پیر کو وکلاء کی ہڑتال کے باعث رمشاء مسیح کی ضمانت کی درخواست پر سماعت 7 ستمبر تک ملتوی کر دی گئی تھی۔
14سالہ رمشا مسیح کی درخواست پر سماعت اسلام آباد سیشن کورٹ کے ایک جج محمد اعظم خان کی عدالت میں ہونا تھی، تاہم فریقین کے وکلا نے پنجاب بار کونسل کی طرف سے کی جانے والی احتجاجی ہڑتال کے تناظر میں عدالت سے سماعت موخر کرنے کی درخواست کی تھی۔
رمشا کے وکیل اور قانونی ماہرین کے خیال میں شواہد میں مبینہ رد و بدل کے انکشاف کے بعد ذہنی طور پر معذور اس عیسائی لڑکی کی ضمانت پر رہائی کے امکانات روشن ہو گئے ہیں۔
اسلام آباد پولیس نے ہفتہ کو دیر گئے میرا جعفر کی مسجد کے امام خالد جدون کو گرفتار کیا تھا جس پر رمشا کے خلاف پیش کیے گئے شواہد میں رد و بدل کا الزام ہے ۔ خالد جدون پر یہ الزام خود اسی مسجد کے مؤذن حافظ زبیر نے عائد کیا ہے جن کا کہنا ہے کہ امام مسجد نے مسیحی لڑکی سے برآمد ہونے والے خاکستر مواد سے بھرے تھیلے میں مقدس اوراق شامل کیے تھے۔
رمشاء میسح کو 16 اگست کو میرا جعفر سے پولیس نے اس وقت اپنی تحویل میں لے لیا تھا جب اہل علاقہ نے مقدس اوراق کی بے حرمتی کے الزام پر اس لڑکی کے گھر کا محاصرہ کر رکھا تھا۔
پاکستان علماء کونسل کے چیئرمین حافظ طاہر اشرفی نے بین المذاہب ہم آہنگی کے لیے کام کرنے والی مسیحی برادری کی ایک تنظیم ’انٹرفیتھ لیگ‘ کے سربراہ ساجد اسحاق کے ہمراہ پیر کو وفاقی دارالحکومت میں ایک نیوز کانفرنس سے خطاب میں کہا کہ مسیحی اور مسلمان نمائندوں پر مشتمل ایک قانونی کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ رمشاء کے خلاف مقدمے کے اندارج کے وقت قانونی تقاضوں کو پورا نہیں کیا گیا۔
’’جب قانون یہ کہتا ہے کہ ایس ایچ او (پولیس انسپکٹر) سے اوپر کی سطح کا افسر تحقیقات کے بعد ایف آئی آر درج کرے گا تو پھر کیا وجہ ہوئی کہ چند لمحوں میں یہ مقدمہ درج کر لیا گیا اور اس کے بعد سے اب تک پاکستان کے نام پر جو داغ لگ رہے ہیں اس کا ذمہ دار کون ہے۔‘‘
اُنھوں نے دعویٰ کیا کہ اسلام آباد کے مضافاتی علاقے میرا جعفر میں آباد وہ میسحی خاندان جو خوف کے باعث علاقہ چھوڑ گئے تھے انھوں نے اپنے گھروں میں واپس آنا شروع کر دیا ہے۔
پاکستان علماء کونسل کے چیئرمین نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ اگر رمشاء کو عدالت رہا کر دیتی ہے تو حکومت اس لڑکی اور اس کے خاندان والوں کو مکمل تحفظ فراہم کرے۔
’’رمشا کو پاکستان ہی میں رکھا جائے…. کسی بھی پاکستانی کو عدم تحفظ کی بنا پر ملک سے باہر بھیجنا ملک کے وقار اور عزت کے منافی ہے۔‘‘
اس سے قبل پیر کو وکلاء کی ہڑتال کے باعث رمشاء مسیح کی ضمانت کی درخواست پر سماعت 7 ستمبر تک ملتوی کر دی گئی تھی۔
14سالہ رمشا مسیح کی درخواست پر سماعت اسلام آباد سیشن کورٹ کے ایک جج محمد اعظم خان کی عدالت میں ہونا تھی، تاہم فریقین کے وکلا نے پنجاب بار کونسل کی طرف سے کی جانے والی احتجاجی ہڑتال کے تناظر میں عدالت سے سماعت موخر کرنے کی درخواست کی تھی۔
رمشا کے وکیل اور قانونی ماہرین کے خیال میں شواہد میں مبینہ رد و بدل کے انکشاف کے بعد ذہنی طور پر معذور اس عیسائی لڑکی کی ضمانت پر رہائی کے امکانات روشن ہو گئے ہیں۔
اسلام آباد پولیس نے ہفتہ کو دیر گئے میرا جعفر کی مسجد کے امام خالد جدون کو گرفتار کیا تھا جس پر رمشا کے خلاف پیش کیے گئے شواہد میں رد و بدل کا الزام ہے ۔ خالد جدون پر یہ الزام خود اسی مسجد کے مؤذن حافظ زبیر نے عائد کیا ہے جن کا کہنا ہے کہ امام مسجد نے مسیحی لڑکی سے برآمد ہونے والے خاکستر مواد سے بھرے تھیلے میں مقدس اوراق شامل کیے تھے۔
رمشاء میسح کو 16 اگست کو میرا جعفر سے پولیس نے اس وقت اپنی تحویل میں لے لیا تھا جب اہل علاقہ نے مقدس اوراق کی بے حرمتی کے الزام پر اس لڑکی کے گھر کا محاصرہ کر رکھا تھا۔