مقدمے سے جڑے ایک وکیل محمد اظہر صدیق نے بتایا کہ مشترکہ مفادات کونسل نے 2004ء میں اس ڈیم کی تعمیر کو ضروری قرار دیتے ہوئے اس ضمن میں ایک کمیٹی تشکیل دینے کا کہا تھا۔
اسلام آباد —
پاکستان کی ایک اعلیٰ عدالت نے حکم دیا ہے کہ وفاقی حکومت کالا باغ ڈیم کی تعمیر کے لیے مشترکہ مفادات کونسل کی سفارشات پر عمل کرے۔
جمعرات کو لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کالا باغ ڈیم تعمیر نہ کیے جانے کے خلاف دائر درخواستوں کی سماعت کرتے ہوئے کہا کہ حکومت آئین کی شق 154 کے تحت مشترکہ مفادات کونسل کی سفارشات پر عمل کرنے کی پابند ہے۔
جوڈیشل ایکٹویزم کونسل نامی ایک گروپ کی طرف سے دائر کی گئی ان درخواستوں پر فیصلے کے بعد کونسل کے چیئرمین محمد اظہر صدیق نے بتایا کہ مشترکہ مفادات کونسل نے 2004ء میں اس ڈیم کی تعمیر کو ضروری قرار دیتے ہوئے اس ضمن میں ایک کمیٹی تشکیل دینے کا کہا تھا۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اظہر صدیق نے کہا کہ اگر وفاق یا صوبائی حکومت کو کوئی اعتراض ہے تو ’’وہ آئین کے سب آرٹیکل سات کے تحت پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں مشترکہ مفادات کونسل کی سفارشات کو لے کر جائے اور اسے یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ ان سفارشات کو رد کر دے۔‘‘
1978ء میں میانوالی کے قریب واقع کالاباغ کے مقام پر اس منصوبے پر تعمیر کا آغاز ہوا تھا لیکن 1984ء میں اسے روک دیا گیا۔ تب سے لے کر آج تک ملک کو درپیش توانائی کے شدید بحران کے باوجود سیاسی جماعتوں کے درمیان یہ ایک تنازع کی صورت میں زندہ ہے۔
منصوبے کے مطابق کالا باغ ڈیم کے پانی کا ذخیرہ صوبہ خیبرپختونخوا میں ہو گا جب کہ بجلی کی پیداوار کی تنصیبات صوبہ پنجاب کی حدود میں ہوں گی۔ اس صورتحال میں دونوں صوبوں کے درمیان ڈیم سے پیدا ہونے والی بجلی کی آمدن میں حصے کا جھگڑا بھی موجود ہے۔
اس منصوبے کے حق میں پنجاب کے علاوہ دیگر تینوں صوبوں میں شدید مخالفت پائی جاتی ہے۔ صوبہ خیبر پختون خواہ میں برسراقتدارعوامی نیشنل پارٹی کالا باغ ڈیم کی تعمیر کے خلاف ہے جب کہ سندھ اور بلوچستان کی صوبائی اسمبلیوں نے بھی اس منصوبے کے خلاف مذمتی قراردادیں منظور کر رکھی ہیں۔
حکمران جماعت پیپلز پارٹی کا موقف رہا ہے کہ کئی سال پرانے اس منصوبے پر صوبوں میں اختلافات کے باعث آج تک کام شروع نہیں ہوسکا ہے اور اُن کے بقول کالا باغ ڈیم کی تعمیر کا موجودہ حالات میں مطالبہ کرنا صوبوں میں اس معاملے پر منافرت کا باعث بن سکتا ہے۔
جمعرات کو لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کالا باغ ڈیم تعمیر نہ کیے جانے کے خلاف دائر درخواستوں کی سماعت کرتے ہوئے کہا کہ حکومت آئین کی شق 154 کے تحت مشترکہ مفادات کونسل کی سفارشات پر عمل کرنے کی پابند ہے۔
جوڈیشل ایکٹویزم کونسل نامی ایک گروپ کی طرف سے دائر کی گئی ان درخواستوں پر فیصلے کے بعد کونسل کے چیئرمین محمد اظہر صدیق نے بتایا کہ مشترکہ مفادات کونسل نے 2004ء میں اس ڈیم کی تعمیر کو ضروری قرار دیتے ہوئے اس ضمن میں ایک کمیٹی تشکیل دینے کا کہا تھا۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اظہر صدیق نے کہا کہ اگر وفاق یا صوبائی حکومت کو کوئی اعتراض ہے تو ’’وہ آئین کے سب آرٹیکل سات کے تحت پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں مشترکہ مفادات کونسل کی سفارشات کو لے کر جائے اور اسے یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ ان سفارشات کو رد کر دے۔‘‘
1978ء میں میانوالی کے قریب واقع کالاباغ کے مقام پر اس منصوبے پر تعمیر کا آغاز ہوا تھا لیکن 1984ء میں اسے روک دیا گیا۔ تب سے لے کر آج تک ملک کو درپیش توانائی کے شدید بحران کے باوجود سیاسی جماعتوں کے درمیان یہ ایک تنازع کی صورت میں زندہ ہے۔
منصوبے کے مطابق کالا باغ ڈیم کے پانی کا ذخیرہ صوبہ خیبرپختونخوا میں ہو گا جب کہ بجلی کی پیداوار کی تنصیبات صوبہ پنجاب کی حدود میں ہوں گی۔ اس صورتحال میں دونوں صوبوں کے درمیان ڈیم سے پیدا ہونے والی بجلی کی آمدن میں حصے کا جھگڑا بھی موجود ہے۔
اس منصوبے کے حق میں پنجاب کے علاوہ دیگر تینوں صوبوں میں شدید مخالفت پائی جاتی ہے۔ صوبہ خیبر پختون خواہ میں برسراقتدارعوامی نیشنل پارٹی کالا باغ ڈیم کی تعمیر کے خلاف ہے جب کہ سندھ اور بلوچستان کی صوبائی اسمبلیوں نے بھی اس منصوبے کے خلاف مذمتی قراردادیں منظور کر رکھی ہیں۔
حکمران جماعت پیپلز پارٹی کا موقف رہا ہے کہ کئی سال پرانے اس منصوبے پر صوبوں میں اختلافات کے باعث آج تک کام شروع نہیں ہوسکا ہے اور اُن کے بقول کالا باغ ڈیم کی تعمیر کا موجودہ حالات میں مطالبہ کرنا صوبوں میں اس معاملے پر منافرت کا باعث بن سکتا ہے۔