مزدوروں کا کہنا ہے کہ ایک دن کاروبار زندگی معطل ہو جانے سے یومیہ اجرت کمانے والوں کے چولھے ٹھنڈے پڑ جاتے ہیں۔
کراچی —
پاکستان کے معاشی مرکز کراچی سے پورے ملک کی معیشت کی باگ ڈور بندھی ہوئی ہے اگر ایک دن کاروبار زندگی معطل ہوجائے تو قومی خزانے کو اربوں روپے خسارے کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
کاروباری طبقہ اپنی جگہ مگر کراچی میں بسنے والے ہزاروں افراد ایسے بھی ہیں جو روزانہ کی اجرت پر کام کر کے اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ پالتے ہیں۔ کراچی شہر میں جاری ہڑتال کے باعث سب سے زیادہ یہ ہی طبقہ متاثر ہوتا ہے۔ ایک دن کاروبار زندگی معطل ہو جانے سے یومیہ اجرت کمانے والے مزدوروں کے چولھے ٹھنڈے پڑ جاتے ہیں۔
کراچی کے علاقے برنس روڈ پر مزدوروں کی ایک لمبی قطار روزانہ کام ملنے کے انتظار میں بیٹھی دکھائی دیتی ہے، مگر ہڑتال کے باعث ان مزدوروں کے چہرے اداس دکھائی دیتے ہیں۔
مزدوروں کی اس لمبی قطار میں بیٹھے فضل الرحمٰن نامی مزدور کا حال بھی ان تمام مزدوروں جیسا ہی دکھائی دیتا ہے۔ فضل الرحمٰن کے 8 بچے ہیں اور وہ اپنے گھر کا واحد کفیل ہے۔ وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ ’’ہڑتال کے باعث آج تو دیہاڑی ملنا مشکل ہے آج خالی ہاتھ ہی گھرجانا پڑے گا۔‘‘
فضل الرحمٰن نے وی او اے سے گفتگو کرتے ہوئے مزید بتایا کہ’’میں پچھلے 23 سال سے یہ کام کر رہا ہوں۔ مگر چند سالوں سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ملک کے حالات یکدم بدل گئے ہیں، روز روز کی ہڑتال نے ہم غریب مزدوروں کے چولھے ٹھنڈے کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی ہے کبھی کبھی تو نوبت فاقوں تک پہنچ جاتی ہے"
ایک اور مزدور نے وی او اے کو بتایا کہ’’ روزانہ کی دیہاڑی لگ جاتی ہے تو گھر والوں کی روزی روٹی کا مناسب بندوبست ہو جاتا ہے اور جس دن ہڑتال ہوتی ہے تو سب سے زیادہ ہم لوگوں کو نقصان ہوتا ہے ہڑتال کی وجہ سے کام ٹھپ ہوجاتا ہے، تو کھائیں گے کہاں سے؟‘‘
گزشتہ روز ٹرانسپورٹ انتظامیہ کی جانب سے بھی پیر کو ٹرانسپورٹ بند رکھنے کا اعلان کیا گیا تھا مگر رکشہ ڈرائیور اس اعلان کو پس پشت ڈال کر سڑکوں پر رکشے لیے کھڑے ہیں کہ کب کوئی سواری مل جائے۔ سواری کے انتظار میں کھڑے محمد علی نامی رکشہ ڈرائیور نے بتایا کہ’’ہڑتال تو ہے مگر اس سے کہیں زیادہ ہمیں اپنے گھر والوں کی روٹی کی فکر ہے کہ ان کا کیا بنے گا ڈر اور خوف میں زندگی گزار رہے ہیں مگر پیٹ کا کیا کریں؟‘‘
آئی آئی چندریگر روڈ پر کھڑے رکشہ ڈرائیور رشید کی روداد اس سے کہیں زیادہ تلخ تھی۔ رشید نے وی او اے کو بتایا کہ " گھر والوں کی روزی روٹی کی خاطر ہم رکشہ ڈرائیور بھی ہڑتال کے دن اپنی جانوں سے کھیل رہے ہیں، ہڑتال میں رکشے جلائے جانے کا ڈر بھی ہے مگر مجبوری ہے کیا کریں۔‘‘
رشید کہتے ہیں کہ ان کے پانچ بچے ہیں ’’جن میں سے میرا جوان سالہ بیٹا نشے کی لت کا شکار ہو کر خود بھی نشہ بیچنے کے جرم میں جیل میں قید ہے میرے پاس اتنے پیسے بھی نہیں کہ اس کی ضمانت کروا سکوں روز کا گزارہ مشکل ہوگیا ہے۔ جبکہ بیٹے کی بیوی بچوں کی کفالت بھی میرے ذمے آ گئی ہے۔ آج کی ہڑتال کے باعث سواری ملنا مشکل ہے اور گھر والوں کی روٹی کا بندوبست اب ادھار پر کرنا پڑے گا۔‘‘
کاروباری طبقہ اپنی جگہ مگر کراچی میں بسنے والے ہزاروں افراد ایسے بھی ہیں جو روزانہ کی اجرت پر کام کر کے اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ پالتے ہیں۔ کراچی شہر میں جاری ہڑتال کے باعث سب سے زیادہ یہ ہی طبقہ متاثر ہوتا ہے۔ ایک دن کاروبار زندگی معطل ہو جانے سے یومیہ اجرت کمانے والے مزدوروں کے چولھے ٹھنڈے پڑ جاتے ہیں۔
کراچی کے علاقے برنس روڈ پر مزدوروں کی ایک لمبی قطار روزانہ کام ملنے کے انتظار میں بیٹھی دکھائی دیتی ہے، مگر ہڑتال کے باعث ان مزدوروں کے چہرے اداس دکھائی دیتے ہیں۔
مزدوروں کی اس لمبی قطار میں بیٹھے فضل الرحمٰن نامی مزدور کا حال بھی ان تمام مزدوروں جیسا ہی دکھائی دیتا ہے۔ فضل الرحمٰن کے 8 بچے ہیں اور وہ اپنے گھر کا واحد کفیل ہے۔ وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ ’’ہڑتال کے باعث آج تو دیہاڑی ملنا مشکل ہے آج خالی ہاتھ ہی گھرجانا پڑے گا۔‘‘
فضل الرحمٰن نے وی او اے سے گفتگو کرتے ہوئے مزید بتایا کہ’’میں پچھلے 23 سال سے یہ کام کر رہا ہوں۔ مگر چند سالوں سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ملک کے حالات یکدم بدل گئے ہیں، روز روز کی ہڑتال نے ہم غریب مزدوروں کے چولھے ٹھنڈے کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی ہے کبھی کبھی تو نوبت فاقوں تک پہنچ جاتی ہے"
ایک اور مزدور نے وی او اے کو بتایا کہ’’ روزانہ کی دیہاڑی لگ جاتی ہے تو گھر والوں کی روزی روٹی کا مناسب بندوبست ہو جاتا ہے اور جس دن ہڑتال ہوتی ہے تو سب سے زیادہ ہم لوگوں کو نقصان ہوتا ہے ہڑتال کی وجہ سے کام ٹھپ ہوجاتا ہے، تو کھائیں گے کہاں سے؟‘‘
گزشتہ روز ٹرانسپورٹ انتظامیہ کی جانب سے بھی پیر کو ٹرانسپورٹ بند رکھنے کا اعلان کیا گیا تھا مگر رکشہ ڈرائیور اس اعلان کو پس پشت ڈال کر سڑکوں پر رکشے لیے کھڑے ہیں کہ کب کوئی سواری مل جائے۔ سواری کے انتظار میں کھڑے محمد علی نامی رکشہ ڈرائیور نے بتایا کہ’’ہڑتال تو ہے مگر اس سے کہیں زیادہ ہمیں اپنے گھر والوں کی روٹی کی فکر ہے کہ ان کا کیا بنے گا ڈر اور خوف میں زندگی گزار رہے ہیں مگر پیٹ کا کیا کریں؟‘‘
آئی آئی چندریگر روڈ پر کھڑے رکشہ ڈرائیور رشید کی روداد اس سے کہیں زیادہ تلخ تھی۔ رشید نے وی او اے کو بتایا کہ " گھر والوں کی روزی روٹی کی خاطر ہم رکشہ ڈرائیور بھی ہڑتال کے دن اپنی جانوں سے کھیل رہے ہیں، ہڑتال میں رکشے جلائے جانے کا ڈر بھی ہے مگر مجبوری ہے کیا کریں۔‘‘
رشید کہتے ہیں کہ ان کے پانچ بچے ہیں ’’جن میں سے میرا جوان سالہ بیٹا نشے کی لت کا شکار ہو کر خود بھی نشہ بیچنے کے جرم میں جیل میں قید ہے میرے پاس اتنے پیسے بھی نہیں کہ اس کی ضمانت کروا سکوں روز کا گزارہ مشکل ہوگیا ہے۔ جبکہ بیٹے کی بیوی بچوں کی کفالت بھی میرے ذمے آ گئی ہے۔ آج کی ہڑتال کے باعث سواری ملنا مشکل ہے اور گھر والوں کی روٹی کا بندوبست اب ادھار پر کرنا پڑے گا۔‘‘