پٹیل پاڑہ کے علاقے میں گشت پر معمور پولیس اہلکاروں کی گاڑی پر نامعلوم مسلح افراد نے فائرنگ کردی
پاکستان کے اقتصادی مرکز کراچی میں ایک بار پھر تشدد کی لہر میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے اور اتوار کو بھی مختلف علاقوں میں فائرنگ اور دستی بم حملوں کے واقعات میں تین پولیس اہلکاروں سمیت کم ازکم پانچ افراد ہلاک ہوگئے۔
پولیس حکام کے مطابق پٹیل پاڑہ کے علاقے میں گشت پر معمور پولیس اہلکاروں کی گاڑی پر نامعلوم مسلح افراد نے فائرنگ کردی جس سے تین اہلکار موقع پر ہی ہلاک ہوگئے۔
شہر میں اس سے قبل بھی پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کو نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔
اسی دوران لیاری کے علاقے میں دستی بم کے حملے میں ایک بچی سمیت دو افراد ہلاک ہوگئے۔
کراچی میں حالیہ برسوں کے دوران قتل و غارت گری کی وارداتوں کے علاوہ اغوا برائے تاوان اور بھتہ خوری کے واقعات میں اضافہ دیکھنے میں آیا لیکن گزشتہ ماہ ہونے والے عام انتخابات کے بعد اس میں اس لہر میں ایک بار پھر شدت دیکھی جا رہی ہے۔
ساحلی شہر میں حالیہ دنوں کے دوران ہونے والے واقعات کے محرکات کے بارے میں سٹیزن پولیس لیزاں کمیٹی کے سربراہ احمد چنائے کہتے ہیں کہ نئی حکومت کے آتے ہی ’’کوئی تیسری قوت‘‘ اسے ناکامی کی طرف لے جانے کی کوشش کررہی ہے۔
شہر کے قدیم اور گنجان آباد علاقے لیاری میں مبینہ جرائم پیشہ عناصر کے ٹھکانوں اور وہاں سکیورٹی فورسز کی کارروائیاں ہمیشہ ایک متنازع عمل رہا ہے جس میں بسا اوقات مشتبہ سیاسی مصلحت اور علاقہ مکینوں کی طرف سے مزاحمت کے باعث تاحال کوئی خاطر خواہ کامیابی دیکھنے میں نہیں آئی ہے۔
ملک کی معیشت کے لیے شہ رگ تصور کیے جانے والے اس شہر میں قانون نافذ کرنے والے اداروں نے امن و امان کو قابو میں رکھنے کے لیے سخت اقدامات کر رکھے ہیں اور نئی حکومت نے بھی اس ضمن میں اپنے عزم کو دہرایا ہے۔ تاہم شہریوں کے لیے ابھی تک خوف و ہراس کی فضا برقرار ہے۔
پولیس حکام کے مطابق پٹیل پاڑہ کے علاقے میں گشت پر معمور پولیس اہلکاروں کی گاڑی پر نامعلوم مسلح افراد نے فائرنگ کردی جس سے تین اہلکار موقع پر ہی ہلاک ہوگئے۔
شہر میں اس سے قبل بھی پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کو نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔
اسی دوران لیاری کے علاقے میں دستی بم کے حملے میں ایک بچی سمیت دو افراد ہلاک ہوگئے۔
کراچی میں حالیہ برسوں کے دوران قتل و غارت گری کی وارداتوں کے علاوہ اغوا برائے تاوان اور بھتہ خوری کے واقعات میں اضافہ دیکھنے میں آیا لیکن گزشتہ ماہ ہونے والے عام انتخابات کے بعد اس میں اس لہر میں ایک بار پھر شدت دیکھی جا رہی ہے۔
ساحلی شہر میں حالیہ دنوں کے دوران ہونے والے واقعات کے محرکات کے بارے میں سٹیزن پولیس لیزاں کمیٹی کے سربراہ احمد چنائے کہتے ہیں کہ نئی حکومت کے آتے ہی ’’کوئی تیسری قوت‘‘ اسے ناکامی کی طرف لے جانے کی کوشش کررہی ہے۔
شہر کے قدیم اور گنجان آباد علاقے لیاری میں مبینہ جرائم پیشہ عناصر کے ٹھکانوں اور وہاں سکیورٹی فورسز کی کارروائیاں ہمیشہ ایک متنازع عمل رہا ہے جس میں بسا اوقات مشتبہ سیاسی مصلحت اور علاقہ مکینوں کی طرف سے مزاحمت کے باعث تاحال کوئی خاطر خواہ کامیابی دیکھنے میں نہیں آئی ہے۔
ملک کی معیشت کے لیے شہ رگ تصور کیے جانے والے اس شہر میں قانون نافذ کرنے والے اداروں نے امن و امان کو قابو میں رکھنے کے لیے سخت اقدامات کر رکھے ہیں اور نئی حکومت نے بھی اس ضمن میں اپنے عزم کو دہرایا ہے۔ تاہم شہریوں کے لیے ابھی تک خوف و ہراس کی فضا برقرار ہے۔