پاکستان میں بجلی کی کھپت اور رسد میں مسلسل بڑھتے ہوئے فرق کے باعث اس کے زیرِ انتظام کشمیر میں پن بجلی کے ایک اہم منصوبے پر کام تیز کر دیا گیا ہے۔
’’نیلم جہلم ہائیڈرو الیکٹرک پراجیکٹ‘‘ کی تعمیر 2008ء میں شروع ہوئی تھی اور پانی و توانائی کی ترقی کے ادارے ’واپڈا‘ کے حکام کا کہنا ہے کہ تکمیل کے بعد اس سے 969 میگاواٹ بجلی حاصل ہو سکے گی۔
یہ منصوبہ بھارتی کشمیر سے بہہ کر آنے والے دریائے نیلم پر تعمیر کیا جا رہا ہے، جسے بھارتی حدود میں کِشن گنگا کے نام سے جانا جاتا ہے۔
نیلم جہلم ہائیڈرو الیکٹرک پراجیکٹ کے ڈائریکٹرجنرل (کوآرڈیینشین) سردار محمد الطاف نے وائس آف امریکہ کو دیے گئے انٹرویو میں بتایا کہ پاکستانی کشمیر کے دارالحکومت مظفرآباد سے 40 کلومیٹر دور نوسیری کے مقام پر 39 کلومیٹر طویل دو سرنگوں کے ذریعے دریائے نیلم کے پانی کا رخ تبدیل کرکے سستی بجلی پیدا کی جائے گی۔
اس منصوبے پر مجموعی لاگت کا ابتدائی تخمینہ 130 ارب روپے لگایا گیا تھا لیکن مہنگائی اور ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں کمی کی وجہ سے اب یہ 272 ارب روپے سے تجاوز کر چکا ہے۔
نیلم جہلم ہائیڈرو الیکٹرک پراجکٹ سے حاصل ہونے والی بجلی نیشنل گریڈ میں شامل کرکے ملک کے مختلف حصوں میں فراہم کی جائے گی۔
سردار محمد الطاف نے بتایا کہ بھارت کی طرف اس کے زیرِ انتظام کشمیر میں اس دریا پر تعمیر کیے جانے والے کِشن گنگا ڈیم کی وجہ سے نیلم جہلم ہائیڈرو الیکٹرک پراجیکٹ کی اصل پیداوار صلاحیت میں 13 فیصد کمی کا سامنا ہوگا، لیکن اس فرق کو ایک متبادل سرنگ کے ذریعے پن بجلی کی پیداوار سے پورا کر لیا جائے گا۔
اس متبادل سرنگ سے حاصل ہونے والی بجلی براہ راست پاکستانی کشمیر کے دارالحکومت اور اس کے گرد و نواح کے علاقوں کو مہیا کی جائے گئی۔
سردار الطاف نے بتایا کہ دریائے نیلم پر 60 میٹر اونچا ڈیم اور 9 کلومیٹر لمبی اور 166 میٹر چوڑی جھیل بنائی جا رہی ہے، جس سے موسم سرما میں دریا میں پانی کے بہاؤ میں کمی کو پورا کیا جائے گا۔
مظفرآباد شہر کے بیچ سے گزرنے والے اس دریا کا تقریباً 85 فیصد پانی بجلی کی پیداوار کے لیے سرنگوں کی جانب موڑا جائے گا اور موسم سرما میں شہر کے نکاسی آب اور آب نوشی کے لیے دریا میں وافر مقدار میں پانی کے بہاؤ کو یقینی بنایا جائے گا۔
اُنھوں نے کہا کہ منصوبے کی جگہ نوسیری میں دریائے نیلم پر واپڈا نے 54 کروڑ روپے کی لاگت سے آر سی سی پل تعمیر کیا ہے جس سے عوام کو نقل و حمل کی بہتر سہولت بھی میسر ہوئی ہے۔
اس پن بجلی کی فروخت سے حاصل ہونے والے سرمائے کےعلاوہ ڈیم اور جھیل کی تعمیر سے علاقے میں سیاحت کو فروغ بھی حاصل ہوگا، روزگار کے مواقع دستیاب ہوں گے اور علاقے میں معاشی خوشحالی آئے گی۔
سردار محمد الطاف نے بتایا کہ اس منصوبے کی تعمیر کے لیے پاکستانی کشمیر کی حکومت، واپڈا اور وفاقی حکومت کے درمیان معاہدہ آخری مراحل میں ہے جس میں دیگر اُمور کے علاوہ ماحولیاتی معیار پر عمل درآمد کو یقینی بنایا گیا ہے۔
منصوبے میں مظفرآباد کے قریب پانی جمع کرنے کے لیے ایک ڈیم، تفریح گاہ، ماڈل سیوریج ٹریٹمنٹ پلانٹ اور ایک ووکیشنل ٹریننگ انسٹیٹیوٹ کا قیام بھی شامل ہے۔
منصوبے کی تعمیر کا 34 فیصد کام مکمل کر لیا گیا ہے، اور اس کی تکمیل 2016ء میں متوقع ہے۔