کشمیری مہاجرین کی آبائی علاقوں کو واپسی میں تیزی

  • روشن مغل

مظفرآباد میں قائم ’مانک پائیاں‘ مہاجر کیمپ۔

کہ واپس جانے والوں کو آبائی علاقوں میں بھی مشکلات کا سامنا ہے، جہاں ان پر کئی پابندیاں بھی عائد کی جاتی ہیں۔
سن 1990ء میں بھارتی کشمیر سے پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر ہجرت کرنے والے ہزاروں کشمیریوں نے آبائی گھروں کو واپس جانا شروع کر دیا ہے۔

بھارت سے علیحدگی کی تحریک کے آغاز کے بعد پاکستانی حدود میں منتقل ہونے والے 17 ہزار سے زائد کشمیریوں کو مظفرآباد سمیت مختلف شہروں میں قائم مہاجر کیمپوں میں آباد کیا گیا تھا۔

کشمیر کو بھارت اور پاکستان کے درمیان تقسیم کرنے والی لائن آف کنٹرول کو 22 برس قبل پیدل عبور کرکے یہاں پناہ لینے والوں کو اسی راستے سے واپس جانے کی اجازت نہیں ہے۔

اُنھیں واپسی کا سفر اب نیپال کے راستے ہزاروں روپے کے خرچ اور ویزے کے ذریعے طے کرنا پڑ رہا ہے۔

پاکستانی کشمیر کے دارالحکومت مظفرآباد کے ایک مہاجر کیمپ ’مانک پائیاں‘ کے سربراہ عزیر غزالی نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ زلزلے سے متاثر ہ مہاجرین کی عدم بحالی، معاشی مشکلات اور پاکستان کی طرف سے بھارت کے ساتھ تعلقات میں بہتری کے لیے تنازع کشمیر کومبینہ طور پر پس پشت ڈالنے کی وجہ سے مہاجرین میں مایوسی پھیلی ہے جس کی وجہ سے اب تک سینکڑوں مہاجرین بھارتی کشمیر واپس جا چکے ہیں۔

تاہم انھوں نے کہا کہ واپسی کا سفر مشکل اور اتنہائی مہنگا ہونے کی وجہ سے یہ ہر کسی کے لیے ممکن نہ ہے۔

عزیر غزالی


عزیر غزالی کے بقول ایک خاندان کو نیپال کے راستے واپس جانے کے لیے اوسطاً اڑھائی لاکھ روپے کی ضرورت پڑتی ہے اور یہ سفر 10 دن میں طے ہوتا ہے۔

انھوں نے بتایا کہ واپس جانے والوں کو آبائی علاقوں میں بھی مشکلات کا سامنا ہے، جہاں ان پر کئی پابندیاں بھی عائد کی جاتی ہیں۔

عزیر غزالی نے کہا کہ کیمپوں میں مقیم مہاجرین کو 1,500 روپے فی کس کے حساب سے ماہانہ گزارہ الاؤنس دیا جاتا ہے، جو فی خاندان اوسطاً چھ سے آٹھ ہزار روپے بنتا ہے۔

مہاجرین کی بحالی کے ادارے محکمہ بحالیات کے ریفیوجی ویلفئر آفیسر سمیع الدین گیلانی نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ پاکستانی کشمیر میں سات ہزار کشمیری خاندانوں کے 34 ہزار 815 افراد 28 کیمپوں میں مقیم ہیں۔

ان میں سے چار ہزار 607 خاندانوں کے 21 ہزار 276 افراد مظفرآباد کے 22 کیمپوں میں آباد ہیں۔

مہاجرین کے زیرِ استعمال مکانات


سمیع الدین نے کہا کہ اسلام آباد اور راولپنڈی میں مقیم کئی خاندان گزشتہ چند ماہ کے دوران واپس بھارتی کشمیر جا چکے ہیں۔

کیمپوں میں آباد کشمیری مہاجرین کی اکثریت کا تعلق بھارت کے زیرِ انتظام کشمیری علاقوں کرناہ، کپواڑہ، کیرن اور اوڑی سے ہے۔

یہ امر قابل ذکر ہے کہ دو برس قبل بھارتی حکومت کی طرف سے 1990ء کے بعد کنٹرول لائن عبور کرنے والوں کے لیے معافی اور واپسی کی پالیسی کا بھی اعلان کیا گیا تھا، جسے مہاجرین اور عسکریت پسند تنظیموں نے مسترد کر دیا۔ اس کے بعد اکا دکا افراد کی گھروں کو واپسی کا سلسلہ شروع ہوا جس میں حالیہ مہینوں میں تیزی آئی ہے۔