پاکستان کے شمال مغربی صوبہ خیبر پختونخواہ میں قبائلی علاقے شمالی وزیرستان سے لاکھوں کی تعداد میں لوگوں کی آمد کے باعث پولیو وائرس کے پھیلاؤ کا خدشہ پیدا ہو چلا ہے اور اسی تناظر میں محکمہ صحت نے صوبے کے سات اضلاع بشمول بنوں میں انسداد پولیو کی مہم کا آغاز کر دیا ہے۔
رواں سال رپورٹ ہونے والے 90 پولیو کیسز میں سے اکثریت شمالی وزیرستان سے بتائی جاتی ہے اور گزشتہ ماہ اس قبائلی علاقے میں شدت پسندوں کے خلاف فوجی کارروائی کی وجہ سے اب تک سات لاکھ سے زائد افراد نقل مکانی کر کے خیبرپختونخواہ کے مختلف علاقوں میں منتقل ہوئے ہیں جن میں دو لاکھ سے زائد بچے بھی شامل ہیں۔
صوبائی محکمہ صحت کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر وحید برکی نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ پانچ ہفتوں تک جاری رہنے والی اس مہم میں نقل مکانی کر کے آنے والوں کے علاوہ مقامی آبادی کے بچوں کو بھی پولیو ویکسین پلائی جائے گی تاکہ وائرس کے پھیلاؤ کے خدشے کو روکا جا سکے۔
"جنوبی اضلاع میں بہت خطرہ ہے ایسا نہ ہو کہ یہ پولیو وبائی شکل اختیار کر جائے تو ہم نے اسی چیز کو مدنظر رکھتے ہوئے فیصلہ کیا کہ پانچ ہفتوں کے لیے یہ مہم شروع کی جائے۔۔۔ہر ہفتے تین دن تک یہ مہم جاری رہے گی، اس کے لیے ساڑھے چار ہزار ٹیمیں تشکیل دی گئی ہیں جن کی حفاظت کے لیے سکیورٹی کا بھی مناسب انتظام کیا گیا ہے۔"
قبل ازیں حکومتی عہدیدار یہ کہتے آئے ہیں کہ نقل مکانی کر کے آنے والوں کو بندوبستی علاقوں میں داخلے کے وقت بھی پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلائے گئے تھے۔
تاہم عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ چونکہ شمالی وزیرستان میں گزشتہ دو سالوں میں انسداد پولیو مہم نہیں چلائی گئی اس لیے وہاں سے آنے والے بچوں کو جب تک ایک ماہ میں پانچ دفعہ یہ قطرے نہ پلائے گئے تو پولیو کے پھیلاؤ کا خطرہ موجود رہے گا۔
شمالی وزیرستان میں شدت پسندوں کی طرف سے عائد کردہ پابندی کی وجہ سے وہاں دو سالوں سے پولیو ٹیموں کی رسائی ممکن نہیں تھی جب کہ ملک کے دیگر حصوں میں انسداد پولیو کی ٹیموں پر جان لیوا حملوں کی وجہ سے بھی پولیو مہم بارہا تعطل کا شکار رہی۔
نائیجیریا اور افغانستان کے علاوہ پاکستان دنیا کا وہ تیسرا ملک ہے جہاں پولیو وائرس پر تاحال پوری طرح قابو نہیں پایا جاسکا جب کہ پاکستان کو عالمی سطح پر پولیو وائرس پھیلانے والے ممالک میں شامل کیے جانے کے بعد دو ماہ قبل عالمی ادارہ صحت کی سفارش پر یہاں سے بیرون ملک سفر کرنے والوں کو پولیو ویکسین پینا اور اس کا کارڈ دکھانا لازمی قرار دیا جا چکا ہے۔